الحمد للہ.
ہم آپ كے سوال كو مذاق كس طرح سمجھ سكتے ہيں، كيونكہ آپ تو وہى كام كر رہے جس كا آپ كو حكم ديا گيا ہے كہ جس چيز كا حكم معلوم نہ ہو اس كے متعلق دريافت كر ليں.
ايك شخص جن كا نام ابو رفاعہ رضى اللہ تعالى عنہ ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سوال كرنے كے ليے آئے وہ بيان كرتے ہيں:
ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پاس آيا اور آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ايك اجنبى شخص دين كے متعلق دريافت كر رہا ہے جو اپنے دين كے بارہ ميں كچھ نہيں جانتا.
وہ بيان كرتے ہيں: چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرى طرف متوجہ ہوئے اور خطبہ دينا ترك كر ديا حتى كہ ميرے پاس آ گئے، اور ايك كرسى ميرا خيال ہے اس كى ٹانگيں لوہے كى تھيں لائى گئى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس پر بيٹھ گئے، اور مجھے وہ كچھ سكھانے لگے جو اللہ تعالى نے انہيں سكھايا تھا، اور پھر جا كر آخر تك اپنا خطبہ مكمل كيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 876 ).
اس ليے آپ كا ہم پر حق ہے كہ اگر ہميں اس سوال كا جواب معلوم ہے تو آپ كو جواب ديں.
آپ كے سوال كا جواب يہ ہے كہ:
بالوں كى تين قسميں ہيں: ايك بال تو وہ ہيں جنہيں اتارنے اور زائل كرنے كا حكم ديا گيا ہے، مثلا زيرناف بال اور بغلوں كے بال، اوركچھ بال ايسے ہيں جنہيں باقى ركھنے كا حكم ديا گيا ہے: مثلا مرد كى داڑھى كے بال، اور كچھ بال ايسے ہيں جن كے متعلق خاموشى ہے نہ تو اس كے زائل كرنے اور نہ ہى انہيں باقى ركھنے ميں كوئى شرعى نص وارد ہے اور تيرا رب بھولنے والا نہيں .
چنانچہ ان بالوں كا حكم مباح ہے، اگر چاہيں تو انہيں رہنے ديں، اور اگر چاہيں تو ان كے زائل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 451 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .