جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا فيكٹرى كى مشينرى پر زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟

74987

تاریخ اشاعت : 06-05-2009

مشاہدات : 7521

سوال

كيا فيكٹريوں كى مشينرى پر زكاۃ واجب ہوتى ہے ، يہ معلوم ہونے كے باوجود كہ اس كى قيمت بہت زيادہ ہو سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فيكٹريوں اور كمپنيوں كى چھوٹى بڑى مشينرى اور اس كى سامان يا ملازمين كى نقل و حمل ميں استعمال ہونے والى گاڑيوں ميں زكاۃ نہيں ہے.

پہلے علملاء كرام نے بيان كيا ہے كہ كاريگروں كے آلات، مثلا بڑھئى، اور معمار اور لوہار وغيرہ كے آلات ميں زكاۃ نہيں ہے.

كاسانى رحمہ اللہ تعالى نے " بدائع الصنائع " ميں كہتے ہيں:

" كاريگر كے آلات اور برتن اور تجارتى سامان ( بادانہ ) يہ تجارت كا مال نہيں ہو گا، كيونكہ عام طور پر يہ اشياء تجارتى سامان كے ساتھ فروخت نہيں ہوتيں " انتہى

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 3 / 398 ).

اور كشاف القناع ميں ہے:

صنعتى آلات اور تجارت كے سامان اور عطار اور تيل فروخت كرنے والے كى بوتلوں ميں زكاۃ نہيں، اسى طرح شہد اور گھى والى بوتلوں ميں بھى، ليكن اگر يہ بوتليں اور اس ميں جو كچھ ہو وہ سب فروخت كرنے كے ليے ہوں تو پھر ان سب اشياء كى زكاۃ دى جائيگى كيونكہ يہ تجارتى مال ہے، اور اسى طرح جانوروں كے آلات اگر يہ حفاظت كے ليے ہوں تو اس ميں زكاۃ نہيں، كيونكہ يہ زخيرہ كے ليے ہے، اور اگر وہ انہيں اس كے ساتھ فروخت كرتا اور قيمت ليتا ہو تو يہ تجارت كا مال ہے، اس كى زكاۃ دے گا"

ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 168 ).

اور ان آلات اور مشينرى كا ضخيم ہونا اور حجم كى زيادتى اور كى كثرت اس كے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں لاتى، بلكہ يہ اپنے اصل پر باقى رہے گا، اور احكام شريعت اپنے پہلے اصول پر رہيں گے جب وہ وہى ہوں، لہذا ہوائى جہازوں اور گاڑيوں ساتھ لمبى لمبى مسافات طے سفر كى رخصت اور احكام ميں كچھ تبديلى نہيں لائينگے ....

اور اسى طرح چاہے صعنتى آلات ميں تغير و تبدل ہو چكا ہے، يہ اس كے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں لائيگا"

يہ قول شيخ عبد اللہ البسام كا ہے، بتصرف : ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 722 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:

ان ايام ميں جو جديد كام شروع ہو چكے ہيں، زراعتى فارم، اور ڈيرى فارم، اور حيوانات كے فارم، اور اسى طرح جائداد كے بڑے بڑے منصوبے مثلا عمارتيں، تو كيا ان اشياء پر زكاۃ ہے، اور يہ زكاۃ كيسے نكالى جائے گى؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب يہ منصوبہ جات خريد و فروخت كے ليے ہوں اور منافع كے حصول كے ليے قائم كيے جائيں تو ان منصوبوں كا مالك ہر سال اس كى زكاۃ ادا كرے گا، جب اس نے يہ منصوبہ جات فروخت كے ليے قائم كيے ہيں، چاہے يہ مال عمارتى اور بلڈنگ كى شكل ميں ہو يا پھر زمين اور دوكانوں يا پھر جانور و حيوانات كے فارم كى شكل ميں ہوں، تو مالك اس كى قيمت كا حساب لگا كر ہر سال اس كى زكاۃ ادا كرے گا.

ليكن وہ مشينرى اور آلات جو فروخت كے ليے نہ ہوں ان ميں زكاۃ نہيں ہے، اور جس زمين پر فارم قائم ہو بلكہ مالك نے وہ زمين صرف جانور وغيرہ كو پالنے كے فارم كے تيار كى ہے اور وہ زمين فروخت كے ليے نہيں تو اس كى زكاۃ نہيں ہو گى، اور اسى طرح لوہار اور بڑھئى كے استعمال ہونے والے آلات ميں بھى كوئى زكاۃ نہيں، مثلا آرا اور كلہاڑى وغيرہ بلكہ زكاۃ تو ان آلات ميں ہو گى جو فروخت كرنے كے ليے ہوـ جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے ـ اور وہ بھى اس وقت جب اس پر سال گزر ہو جائے تو اس كى قيمت لگا كر زكاۃ ادا كرے گا، جيسا كہ فروخت كے ليے گاڑى اور زمين پر زكاۃ ہے. انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 184 ).

مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ہمارى كمپنى ميں استعمال كمپنى كے استعمال كے ليے گاڑياں اور مكسچر آلات وغيرہ ہيں كيا ان پر زكاۃ ہو گى ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر تو يہ گاڑياں اور آلات اجرت پر ديے جاتے ہيں تو نصاب تك پہنچنے اور سال مكمل ہونے كے بعد اجرت پر زكاۃ ہو گى، اور اگر كمپنى كا مالك ٹھيكے ليكر ان آلات اور گاڑيوں كو ان ٹھيكوں كو مكمل كرنے ميں استعمال كرتا ہے تو پھر وہ اس كے عوض ميں حاصل ہونے والى آمدنى پر سال گزرنے كے بعد زكاۃ ادا كرے گا، ليكن نہ تو ان آلات ميں اور نہ ہى ان كى قيمت ميں زكاۃ ہے، كيونكہ يہ فروخت كرنے كے ليے نہيں، بلكہ يہ تو استعمال كے ليے ہيں" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 345 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" انسان اپنے پاس جو برتن، بستر اور بچھونے، اور آلات، گاڑياں، اور جائداد وغيرہ جمع كر كے ركھتا چاہے اس نے يہ سب كچھ اجرت پر دينے كے ليے جمع كيا ہو اس پر زكاۃ نہيں، چاہے كسى انسان كے پاس ملين كے حساب سے جائداد ہو ليكن وہ اس كى تجارت نہ كرتا ہو ـ يعنى وہ اسے فروخت نہ كرتا ہو اور اس كے بدلے تجارت نہ كرے ـ ليكن اس نے يہ كسى موقع پر فائدہ حاصل كرنے كے ليے ركھے ہيں تو چاہے جتنى زيادہ ہو جائے اس ميں زكاۃ نہيں، بلكہ اس سے حاصل ہونے والى اجرت يا نمو پر زكاۃ ہو گى، اور وہ بھى اس وقت جب اس كے معاہدے كو سال مكمل ہو جائے، اگر سال مكمل نہ ہو تو اس پر زكاۃ نہيں، كيونكہ ان اشياء ميں اصل تو برى الذمہ ہے، حتى كہ اس كے وجوب ميں كوئى دليل پائى جائے.

بلكہ اس پر زكاۃ نہ ہونے كى دليل يہ ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان كے غلام، اور اس كے گھوڑے ميں اس پر زكاۃ نہيں "

تو يہ پر دلالت كرتى ہے كہ انسان وہ مال جو زكاۃ والا نہيں اس ميں سے جس چيز كو اپنے استعمال كے ليے خاص كر لے اس پر زكاۃ نہيں، اور جائداد وغيرہ ميں سے انسان نے جو كچھ اپنے نفع كے ليے خاص كر ليا ہو بلاشك انسان نے وہ اپنے ليے ركھے ہيں نہ كہ كسى دوسرے كے ليے، كيونكہ وہ اسے فروخت نہيں كرنا چاہتا بلكہ وہ اسے نمو اور زيادتى اور فائدہ كے ليے ركھتا ہے. انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 254 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب