الحمد للہ.
بلاشك و شبہ اس كے متعلق واجب و ضرورى موقف تو يہى ہے كہ بدعات كا رد كيا جائے اور اس سے روكا جائے، اور يہ واضح كيا جائے كہ يہ استقامت و قصد سے خارج ہے، اس كے انكار اور اسے روكنے ميں كوئى سستى و تساہل سے كام نہيں لينا چاہيے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم و امر نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل عرب كا كہنا ہے: يہاں رد مردود كے معنى ميں ہے، اور اس كا معنى ہے كہ وہ عمل باطل ہے اس كو شمار نہيں كيا جائيگا اور يہ حديث ايك اسلامى اصول و قواعد ميں سے ايك عظيم قاعدہ و اصول ہے، اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جوامع الكلم ميں سے.
يہ ہر بدعت ايجاد كے مردود ہونے ميں صريح اور واضح حديث ہے، اس حديث كو حفظ كرنا ضرورى ہے، اور منكرات و برائيوں كو ختم كرنے كے ليے استدلال كرنے ميں اس حديث كا استعمال ضرورى ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 12 / 16 ).
كسى بدعتى شخص كے مظہر سے كہ وہ عبادت يا حسن خلق كا بہت اہتمام كرنے والا ہے اس سے شرعى موقف ميں تبديل نہيں ہو گى اور يہ چيز اثرانداز نہيں ہو سكتى، كيونكہ اس سے يہ لازم نہيں آتا كہ اس كا عقيدہ اور عمل بھى صحيح ہے.
اول:
اس ليے كہ ہميں اس كے خاتمے كا علم نہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دار و مدار خاتمے پر ہے "
متفق عليہ.
دوم:
مسلمان كو بعض اوقات كسى خير و بھلائى كى توفيق دى جاتى ہے، اور دوسرى خير و بھلائى سے محروم بھى ہو جاتا ہے، اس كے دلائل بہت ہيں:
1 ـ سھل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك جنگ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور مشركوں كا آمنا سامنا ہوا اور لڑائى ہوئى جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے پڑاؤ ميں آئے اور دوسرے اپنے پڑاؤ ميں چلے گئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ميں ايك شخص تھا جو كسى بھى اكيلے اور لشكر سے عليحدہ مشرك كو ديكھتا اسے اپنى تلوار سے مار ڈالتا، تو صحابہ كہنے لگے آج ہم ميں سے كسى نے بھى اس طرح لڑائى نہيں كى اور كام نہيں آيا جس اس نے كفائت كى.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: رہا وہ تو يقينا جہنمى ہے، چنانچہ ايك شخص كہنے لگا ميں ہميشہ اس كے ساتھ رہونگا:
راوى بيان كرتے ہيں تو وہ شخص اس كے ساتھ ہو ليا جب وہ كھڑا ہوتا تو وہ بھى اس كے ساتھ ٹھر جاتا، اور جب وہ تيز چلتا تو وہ بھى اس كے ساتھ تيزى سے چلتا، راوى بيان كرتے ہيں: وہ آدمى بہت شديد زخمى ہو گيا اور اس نے مرنے ميں جلد بازى سے كام ليتے ہوئے اپنى تلوار زمين پر كھڑى كر كے اس كى نوك اپنے سينے ميں ركھى اور تلوار پر وزن ڈال كر اپنے آپ كو قتل كر ليا.
تو وہ شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ اللہ كے رسول ہيں، آپ نے فرمايا كيا ہوا ؟
تو اس شخص نے عرض كيا: جس شخص كا ابھى آپ نے ذكر فرمايا تھا كہ وہ آگ والوں ميں سے ہے اور لوگوں نے اس كو بہت بھارى اور بڑا خيال كيا تھا تو ميں نے كہا اس كے متعلق ميں تمہارے ليے ضرور خبر ركھوں گا.
لہذا ميں اس كے پيچھے پيچھے رہا حتى كہ وہ شديد زحمى ہوا اور اس نے موت ميں جلدى كرتے ہوئے اپنى تلوار كو زمين ميں سيدھا كھڑا كر كے تلوار كى نوك سينے ميں ركھ كر اوپر وزن ڈال كر اپنے آپ كو ہلاك كر ليا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا:
" يقينا آدمى كوئى ايسا عمل كرتا ہے جو لوگوں كو اہل جنت ميں ظاہر ہوتا ہے حالانكہ وہ خود اہل جہنم ميں سے ہوتا ہے، اور كوئى شخص لوگوں كى نظر ميں جہنميوں والا عمل كرتا ہے ليكن وہ اصلا جنتى ہوتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 112 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں اعمال كے دھوكہ كھانے سے بچنے كا كہا گيا ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 126 ).
2 ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" روز قيامت سب سے پہلے جس شخص كا فيصلہ اور حساب ہو گا وہ شہيد ہے، اسے لايا جائيگا اور اسے اللہ اپنى نعمتوں كى پہچان كرائيگا اور وہ پہچان لے گا، اللہ فرمائيگا تو نے اس دنيا ميں كيا كيا ؟
تو وہ جواب ديگا ميں نے تيرے راہ ميں لڑائى كى حتى كہ مجھے شہيد كر ديا گيا، اللہ فرمائيگا: تو نے جھوٹ بولا ہے، تو نے تو لڑائى اس ليے كى كہ تجھے بہادر اور شجاع كہا جائے تو وہ دنيا ميں كہہ ديا گيا، پھر اس كے بارہ ميں حكم ديا جائيگا اور اسے چہرے كے بل گھسيٹ كر آگ ميں پھينك ديا جائيگا.
اور وہ شخص جس نے تعليم حاصل كى اور دوسروں كى تعليم دى اور قرآن مجيد پڑھا اسے لايا جائيگا اور اسے بھى نعمتوں كى پہچان كرائى جائيگى وہ ان كى پہچان كر لے گا.
اللہ فرمائيگا: اس ميں تو نے كيا كيا ؟ تو وہ جواب دے گا ميں نے علم سيكھا اور دوسروں كى تعليم دى اور تيرى راہ ميں قرآن مجيد پڑھا، اللہ فرمائيگا تو جھوٹ بولتا ہے، ليكن تو نے علم اس سے حاصل كيا تا كہ تجھے عالم كہا جائے اور قرآن مجيد اس ليے پڑھا كہ تجھے قارئ كہا جائے، تو يہ دنيا ميں كہہ ديا گيا، اس كے متعلق حكم ديا جائيگا اور اسے چہرے كے بل گھسيٹ كر جہنم ميں پھينك ديا جائيگا.
اور وہ شخص جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا اور اسے ہر قسم كا مال ديا اسے روز قيامت لايا جائيگا اور نعمتوں كى پہچان كرائى جائيگى وہ ان كى پہچان كر ليگا، اللہ تعالى فرمائيگا اس كا تو نے كيا كيا ؟
تو وہ جواب دےگا جس راہ ميں تو خرچ كرنا پسند كرتا تھا ميں نے ہر اس راہ ميں خرچ كيا، اللہ فرمائيگا تو جھوٹ بولتا ہے، ليكن تو نے تو يہ اس ليے كيا تھا كہ تجھے سخى كہا جائے، تو يہ دنيا ميں كہہ ديا گيا، اسے بھى حكم ديا جائيگا اور چہرے كے بل گھسيٹ كر جہنم ميں پھينك ديا جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1905 ).
يہ ايك اور مثال ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ ظاہر كى اصلاح سے اللہ كے ہاں قبوليت لازم نہيں ہوتى.
3 ـ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ خارجيوں كا گروہ نكلے گا اور يہ بدعتى ہونگے ان كے خلاف ہميں لڑائى كرنا كا حكم ديا اور ہميں يہ بھى بتايا كہ وہ بہت زيادہ عبادت كرينگے اس كے بارہ ميں بيان كرتے ہوئے فرمايا:
" اس امت ميں كچھ لوگ ہونگے جو اپنى نمازوں كى بنسبت تمہارى نمازوں كو حقير جانيں گے، وہ قرآن مجيد كى تلاوت كرينگے جو ان كے حلقوم سے نيچے نہيں جائيگا، وہ دين سے اس طرح نكل جائينگے جس طرح تير شكار سے نكل جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6931 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1064 ).
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں عبادت ميں اجتھاد كرنے كا وصف ديا كہ وہ بہت عبادت گزار ہونگے، حتى كہ صحابہ كرام كى نمازوں كا ان خارجيوں كى نمازوں سے مقارنہ و موازنہ كيا جائے تو وہ حقير لگيں، ليكن اس كے باوجود بتايا كہ وہ دين سے نكل جائينگے.
بعض اوقات اجتھاد ميں غلطى كى وجہ سے آدمى بدعت ميں پڑ جاتا ہے، وہ جان بوجھ كر عمدا مخالفت اور بدعت كا ارتكاب نہيں كرتا، ہم اميد كرتے ہيں كہ اللہ تعالى اسے بخش كر معاف كر ديگا.
امام ذھبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بڑے اہل علم آئمہ كرام كا اچھائياں جب زيادہ ہوں، اور اور اس كے بارہ ميں حق كى تلاش كا علم ہو جائے، اور اس كا علم وسيع ہو، اور اس كى ذكاوت فطانت ظاہر ہون اور نيكى و ورع اور تقوى اور سنت كى اتباع معروف ہو، تو اس كى غلطياں معاف كر دى جاتى ہيں، ہم اسے گمراہ نہيں كہينگے اور اسے پھينك نہيں دينگے اور اس كى اچھائياں بھلا نہيں دينگے، جى ہاں اور نہ ہى اس كى بدعت و غلطى ميں ہم اس كے پيچھے نہيں چلينگے، ہم اس كى توبہ كى اميد ركھتے ہيں " انتہى
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 5 / 271 ).
مومن ميں خير و شر جمع ہو سكتا ہے، اس ليے اس ميں جو خير و بھلائى پائى جاتى ہے اس پر وہ اللہ كا شكر ادا كرے، اور جو اس ميں برائى پائى جاتى ہے اس كى مذمت كرے، ليكن يہ سب اسے وعظ و نصيحت كرنے كے بعد ہونا چاہيے.
واللہ اعلم .