ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

منگنى كے وقت سورۃ الفاتحہ پڑھنا

سوال

ميرى شادى ہونے والى ہے، جس ملك ميں ميرى شادى ہو گى وہاں نكاح ميں سورۃ الفاتحہ پڑھنے كا رواج ہے، جب ہمارے ملك ميں كوئى بھى شادى كرنا چاہتا ہے تو وہ سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہيں، اور اس تقريب ميں كچھ مردوں كو دعوت دى جاتى ہے جس ميں مٹھائى اور مشروبات پيش كيے جاتے ہيں كيا يہاں سورۃ الفاتحہ پڑھنا سنت ہے اور ايسا ہے تو ايسا كرنے كے نتيجہ ميں كيا مرتب ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عقد نكاح يا منگنى ميں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت نہيں بلكہ يہ بدعت ہے، كيونكہ قرآن مجيد كى اعمال ميں كوئى آيت يا سورۃ كى بغير دليل تخصيص كرنا جائز نہيں.

ابو شامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عبادات كو ان اوقات كے ساتھ مخصوص نہيں كرنا چاہيے جس كى تخصيص شريعت نہ ہو، چنانچہ مكلف كو تخصيص كا منصب حاصل نہيں، بلكہ يہ شارع كو حاصل ہے " انتہى

ديكھيں: الباعث على انكار البدع و الحوادث ( 165 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا منگنى كے وقت سورۃ فاتحہ پڑھنا بدعت ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" عورت كے ساتھ مرد كى منگنى يا نكاح كے وقت سورۃ فاتحہ پڑھنا بدعت ہے " انتہى

سورۃ فاتحہ پڑھنے كى نتيجہ ميں عقد نكاح كے احكام ميں سے كوئى حكم مرتب نہيں ہوتا، اس ليے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا معنى يہ نہيں كہ اس سے عقد نكاح مكمل ہوتا ہے، بلكہ عقد نكاح ميں ايجاب و قبول اور ولى اور گواہ كا اعتبار ہوتا ہے.

عقد نكاح كے وقت سنت تو يہ ہے كہ خطبہ حاجت پڑھا جائے، جو درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں نكاح وغيرہ ميں خطبہ حاجت پڑھنے كى تعليم دى وہ خطبہ درج ذيل ہے:

"إِنَّ الحَمدَ لِلَّهِ ، نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغفِرُهُ ، وَنَعُوذُ بِهِ مِن شُرُورِ أَنفُسِنَا ، مَن يَهدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَن يُضلِل فَلَا هَادِيَ لَه ، وَأَشهَدُ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُهُ وَرَسُولُه "

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً

بلا شبہ سب تعريفات اللہ تعالى كے ليے ہيں، ہم اس سے مدد مانگتے اور اسى سے بخشش طلب كرتے ہيں، اور اللہ سے پناہ مانگتے ہيں اپنے نفسوں كى شرارتوں اور اپنے برے اعمال سے، جسے اللہ راہ دكھائے اسے كوئى گمراہ نہيں كر سكتا، اور جسے اللہ گمراہ كر دے اسے كوئى ہدايت نہيں دے سكتا، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ معبود برحق صرف اللہ تعالى ہے وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور اس كے رسول ہيں.

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہيں ايك جان سے پيدا كيا اور پھر اس جان سے اس كى بيوى كو بنايا اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد ا ور عورتيں پيدا كيں اور انہيں ( زمين پر ) پھيلايا، اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس كے ذريعہ ( جس كے نام پر ) تم ايك دوسرے سے سوال كرتے ہو اور رشتوں ( قطع كرنے سے ) ڈرتے رہو، بے شك اللہ تمہارى نگرانى كر رہا ہے .

اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو جيسا كہ اس سے ڈرنے كا حق ہے، اور تمہيں موت بھى اس حالت ميں آئے كہ تم مسلمان ہو .

اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور ايسى بات كہو جو سچى اور محكم ہو، اللہ تمہارے اعمال كى اصلاح كر ديگا، اور تمہارے گناہوں كو معاف فرمائيگا، اور جس شخص نے اللہ اوراس كے رسول كى اطاعت كى تو اس نے بڑى كاميابى حاصل كى .

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2118 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ لوگوں نے اس سنت كو چھوڑ كر اور اس سے اعراض كر ليا اور اس كى بجائے بدعت كو اپنا ليا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان كے دين كى طرف بہتر اور اچھى طرح لوٹائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب