الحمد للہ.
ہميں تو يہ حديث كتب احاديث ميں ان الفاظ ميں نہيں مل سكى، ليكن سنت صحيحہ ميں اس سے مشابہ كچھ احاديث ملتى ہيں، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
رفاعہ بن رافع رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا تاجر لوگ روز قيامت فجار ميں اٹھائے جائينگے، ليكن وہ تاجر جو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے، اور نيكى كرے، اور سچائى اختيار كرے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1210 ) سنن دارمى ( 2 / 247 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2146 ) صحيح ابن حبان ( 11 / 276 ) امام ترمذى كہتے ہيں يہ حديث حسن صحيح ہے، اور امام حاكم نے اسے صحيح الاسناد كہا ہے، اور امام ذہبى نے اس كى موافقت كى ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 994 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مباركپورى كہتے ہيں:
" مگر وہ تاجر جو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے "
وہ اسطرح كہ دھوكہ اور خيانت كر كے نہ تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہو، اور نہ ہى صغيرہ گناہ كا، يعنى اس نے اپنى تجارت ميں لوگوں كے ساتھ احسان كيا، يا اللہ تعالى كى عبادت اور اطاعت كى.
" اور سچائى اختيار كى "
يعنى اس نے اپنى قسم اور باقى سارى كلام ميں سچائى اختيار كى.
قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب تاجر حضرات كى عادت ميں يہ شامل ہے كہ وہ معاملات ميں تدليس كرتے اور چھپاتے ہيں، اور جھوٹى قسموں وغيرہ كے ساتھ جو بھى انہيں كرنا پڑے وہ اس كے ساتھ اپنا مال تجارت فروخت كرنے كى كوشش كرتے ہيں، تو ان پر فجور كا حكم لگايا گيا، اور ان ميں سے جو حرام كردہ اشياء سے اجتناب، اور اپنى قسم ميں نيكى، اور كلام ميں سچائى اختيار كرے اسے تقوى كى بنا پر ان فجار ميں سے مستثنى كيا گيا ہے.
اور شارحين نے يہى شرح كى ہے، اور لغو اور قسم كو فجور پر محمول كيا ہے، مرقاۃ ميں اسى طرح بيان ہوا ہے " انتہى.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 336 ).
اور صحيح احاديث ميں بھى يہى بيان ہوا ہے جو تاجر حضرات كو فجور كا وصف دينے كے سبب پر دلالت كرتا ہے، وہ يہ كہ تاجر جھوٹى قسم كھا كر، اور وعدہ خلافى كر كے تلبيس اور دھوكہ كرتے ہيں.
عبد الرحمن بن شبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا تاجر حضرات فاجر ہيں "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا:
كيا اللہ تعالى نے تجارت حلال نہيں كى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيوں نہيں، ليكن جب وہ بات چيت كرتے ہيں تو جھوٹ بولتے ہيں اور قسميں اٹھا كر گنہگار ہوتے ہيں "
مسند احمد ( 3 / 428 ) مستدرك الحاكم ( 2 / 8 ) امام حاكم نے اسے صحيح الاسناد قرار ديا ہے، اور مسند احمد كے محققين نے اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 366 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
وگرنہ تجارت تو كمائى كے ليے افضل ترين چيز ہے ليكن اس شخص كے ليے جو اس ميں سچائى اور نيكى اختيار كرے، كيونكہ ايك سچائى اختيار كرنے والا امانتدار تاجر شخص عظيم اجر و ثواب كا مستحق ہے.
ابو سعدي خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سچا اور امانتدار تاجر نبيوں اور صديقوں، اور شہداء كے ساتھ ہو گا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1209 ) امام ترمذى كہتے ہيں: يہ حسن ہے، ہم اس طريق كے علاوہ اسے نہيں جانتے.
اور ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اس كى سند كو جيد كہا ہے، جيسا كہ المستدرك على مجموع الفتاوى ( 1 / 163 ) ميں لكھا ہے.
ابو حامد الغزالى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان سب احاديث كو جمع كرنے ميں حالات كى تفصيل ہے: تو ہم كہينگے كہ:
ہم يہ نہيں كہتے كہ تجارت مطلقا ہر چيز سے افضل ہے، ليكن تجارت سے يا تو كفايت طلب ہوتى ہے، يا پھر كفايت سے بھى زيادہ كمائى كى جاتى ہے.
تو اگر كفايت سے زيادہ مال زيادہ اور جمع كرنے كے ليے كمائى كى جائے، نہ كہ اسے خير و بھلائى اور صدقات ميں خرچ كرنے كے ليے تو پھر يہ تجارت قابل مذمت ہے.
كيونكہ يہ دنيا پر متوجہ ہونا ہے جس سے محبت كرنا ہر برائى كى جڑ ہے، اور اگر وہ اس كے ساتھ ساتھ ظالم اور خائن بھى ہو تو پھر يہ ظلم اور فسق ہے.
ليكن اگر وہ اس سے صرف اپنے اور اپنى اولاد كے ليے كفايت طلب كرتا ہے، تو پھر سوال كرنے اور ہاتھ پھيلانے سے تجارت افضل ہے " انتہى.
ديكھيں: احياء علوم الدين للغزالى ( 2 / 79 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21575 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .