سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بغير طہارت كيے ہى نماز ادا كرتا رہا

78409

تاریخ اشاعت : 02-07-2006

مشاہدات : 6076

سوال

بلوغت كے وقت حكم كا علم نہ ہونے كى بنا پر ميں بغير غسل كيے ہى نمازيں ادا كرتا رہا، ميں چھوٹى عمر ميں تھا اور غسل كرنے ميں سستى كرتا تھا تقريبا چار برس تك ايسا ہى كرتا رہا، پھر جب بڑا ہوا تو مجھے اس كا علم ہوا...
اب مجھے اپنے اس معاملہ پر بڑى حيرت ہوتى ہے، اور گناہ كا احساس سا رہتا ہے، كيا ميرے ذمہ چار برس كى نمازوں كى قضاء ہے يا كہ توبہ ہى كافى ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بغير طہارت كيے نماز ادا كرنا كبيرہ گناہ اور عذاب قبر كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے.

امام طحاوى رحمہ اللہ تعالى نے " مشكل الآثار " ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كے بندوں ميں سے ايك بندے كو قبر ميں سو درے مارنے كا حكم ديا گيا، وہ اللہ تعالى سے سوال اور دعاء كرتا رہا حتى كہ ايك درہ رہ گيا، چنانچہ اس كى قبر آگ سے بھر گئى، اور جب اس سے دور ہوئى اور اسے ہوش آيا تو وہ كہنے لگا:

تم مجھے درے كيوں مارتے ہو ؟ انہوں نے جواب ديا: تو بغير طہارت كيے نماز ادا كرتا رہا، اور مظلوم كے پاس سے گزرا اور اس كى مدد تك نہ كى "

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح الترغيب حديث نبمر ( 2234 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

اس عمل پر آپ كو گناہ كا احساس اور ندامت كا اظہار توبہ ہے، ليكن كيا ان نمازوں كى قضاء بھى آپ كى توبہ ميں شامل ہے يا نہيں ؟

اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور جو ظاہر ہوتا ہے وہ يہ كہ اس كى قضاء واجب نہيں، كيونكہ نماز ايك مؤقت عبادت ہے، چنانچہ جب كوئى بندہ نماز ترك كرے تو اسے شرعى طور پر محدود وقت كے اندر اندر نماز كى ادائيگى كرنا ہو گى، اگر وہ محدود وقت ميں ادا نہيں كرتا تو صحيح نہيں ہو گى.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718)

آپ كا بغير طہارت كيے نماز ادا كرنا نماز ترك كرنے كے مترادف ہے كيونكہ بغير طہارت نماز ادا كرنا صحيح نہيں، چنانچہ اس كا وجود نہ ہونے جيسا ہى ہے.

بغير كسى عذر كے وقت ميں نماز ادا نہ كرنا حتى كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے ايسے شخص كے حكم كے متعلق علماء كرام كا اختلاف بيان ہو چكا ہے كہ آيا اس شخص كے ذمہ قضاء ہے يا نہيں ؟ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13664 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس بنا پر آپ پر واجب ہے كہ:

اس عظيم گناہ اور معصيت پر توبہ كريں، اور يہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا كام نہيں كرينگے، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ كثرت نے نوافل ادا كريں، كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے:

يقينا نيكياں برائيوں كو مٹا ڈالتى ہيں .

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى " الاختيارات " ميں لكھتے ہيں:

" اور جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كے ليے نماز كى قضاء كرنى مشروع نہيں، اور نہ ہى اس سے قبول ہو گى، بلكہ وہ كثرت كے ساتھ نوافل ادا كرے، سلف رحمہ اللہ كے ايك گروہ كا قول يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 34 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب