سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

صحیح حدیث کی شرائط

79163

تاریخ اشاعت : 16-09-2024

مشاہدات : 1500

سوال

صحیح حدیث کی کیا شرائط ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب یہ کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے، تو اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:

عمومی مطلب: ایسے میں کوئی بھی متواتر، صحیح لذاتہ، اور صحیح لغیرہ سمیت حسن روایت بھی شامل ہوتی ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ بات ذہن نشین رہے کہ اکثر محدثین کرام حسن روایت کو صحیح روایت سے الگ نہیں کرتے۔” ختم شد
“النكت” (1/480)

خاص معنی: ایسے میں صحیح سے مراد صرف صحیح لذاتہٖ اور صحیح لغیرہٖ روایت مراد ہوتی ہے۔

اس صورت میں صحیح حدیث کی تعریف درج ذیل ہے:

جس روایت کو عادل، مضبوط حافظے والا راوی متصل سند کے ساتھ شذوذ اور علت کے بغیر بیان کرے صحیح کہلاتی ہے۔

چنانچہ اگر کسی راوی کا حافظہ مضبوط نہ ہو، بلکہ قدرے کم ہو تو ایسے راوی کی روایت حسن لذاتہٖ کہلاتی ہے، اور اگر اس کی سندیں کافی ہو جائیں تو یہی روایت صحیح لغیرہٖ بن جاتی ہے۔

دیکھیں: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب: “نخبۃ الفکر”

مندرجہ بالا تعریف کی روشنی میں صحیح حدیث کی درج ذیل شرائط ہیں:

  • تمام راوی عادل ہوں۔
  • تمام راویوں کو روایت اچھی طرح یاد ہو۔
  • شروع سے لے کر آخر تک سند متصل ہو کہ ہر نیچے والے راوی نے اپنے استاد سے وہ روایت سنی ہو۔
  • حدیث کی سند اور متن میں شذوذ نہ ہو، یعنی کوئی بھی راوی اپنے سے مضبوط راوی کی مخالفت نہ کرے۔
  • حدیث کی سند اور متن میں کسی قسم کی علت نہ ہو، علت: صحتِ حدیث پر اثر انداز ہونے والا نہایت باریک سبب علت کہلاتا ہے۔ یہ باریک علل ماہرین علم حدیث کو معلوم ہوتی ہیں۔

صحیح حدیث کے لیے یہ شرائط محدثین کی گفتگو ، اور ان کی عملی پہلوؤں کے مکمل استقرا کے بعد کشید کی گئی ہیں، اسی لیے متقدمین کی گفتگو میں ان شرائط کی طرف اشارہ ملے گا۔

مثلاً: امام شافعی رحمہ اللہ “الرسالة” (370-371) میں کہتے ہیں:
“کسی ایک فرد کی بیان کی ہوئی حدیث اس وقت تک حجت نہیں ہو سکتی جب تک اس میں کچھ چیزیں نہ پائی جائیں، مثلاً: حدیث بیان کرنے والا ذاتی طور پر دیندار ہو، اپنی گفتگو میں سچ بولنے میں مشہور ہو، جو حدیث بیان کر رہا ہے اس کا مطلب بھی جانتا ہو، اور حدیث الفاظ کے تبدیل ہونے سے معنی پر پڑنے والے اثرات سے بھی واقف ہو، حدیث کو بعینہٖ انہی لفظوں میں بیان کرے جیسے اس نے سنے تھے، معنی کا خیال رکھتے ہوئے حدیث بیان نہ کرے؛ کیونکہ اگر معنی کا خیال رکھتے ہوئے حدیث بیان کرتا ہے تو ممکن ہے کہ حلال کو حرام بنا دے، لیکن اگر بعینہٖ الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ حدیث بیان کی جائے تو حدیث کا معنی تبدیل ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہے گا۔ اگر محدث حدیث زبانی بیان کر رہا ہے تو زبانی اچھی طرح یاد ہو، اور اگر لکھی ہوئی حدیث پڑھ کر بیان کرتا ہے تو اس نے اپنی لکھی ہوئی احادیث کی اچھے سے حفاظت کی ہو۔ [اس کا پتہ یوں چلے گا کہ] اگر یہ محدث کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو دیگر محدثین بھی بیان کرتے ہیں تو ان کی مخالفت نہ کرے بلکہ انہی کی طرح روایت بیان کرے۔ محدث مدلس بھی نہ ہو کہ کسی ایسے استاد سے وہ حدیث بیان کرے جس سے وہ ملا تو ہے لیکن یہ حدیث اس سے نہ سنی ہو، اسی طرح محدث نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی روایات بیان نہ کرے جن میں دیگر ثقہ راویوں کی بیان کردہ احادیث سے اختلاف پایا جاتا ہو۔

مذکورہ بالا تمام امور راوی کے استاد سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک متصل سند پہنچنے تک سب مراحل میں لازمی ہیں، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نیچے جہاں تک روایت ہے وہاں تک ہر مرحلے میں ان امور کا خیال رکھا جائے گا۔” ختم شد

اگر کسی حدیث میں یہ تمام شرائط جمع ہو جائیں تو وہ اہل علم کی متفقہ رائے کے مطابق صحیح حدیث ہے، جیسے کہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے نقل کیا ہے۔

دیکھیں: “المقدمة في علوم الحديث” (8) اور علامہ ذہبی ؒ کی کتاب: “الموقظة” (24)

کچھ اہل علم ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان تمام شروط میں سے کسی شرط کو لازمی قرار نہیں دیا:

چنانچہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ نے مرسل حدیث کو قبول کیا ہے، چنانچہ یہ بات سند کے آخر تک متصل ہونے کی شرط کو غیر ضروری قرار دے دیتی ہے۔

علامہ ذہبی رحمہ اللہ “الموقظة” (24) میں کہتے ہیں:
“محدثین کے ہاں سند اور متن کا شذوذ اور علت سے پاک ہونا اضافی شرط ہے، فقہائے کرام کے اصولوں کے مطابق یہ شرط قابل نظر ہے؛ کیونکہ بہت سے علل کو فقہائے کرام تسلیم ہی نہیں کرتے۔” ختم شد
“تدريب الراوي” (1/68-75، 155)

مطلب یہ ہے کہ: علمائے کرام کے ہاں کسی حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف دو اسباب کی بنا پر ہو سکتا ہے:

پہلا سبب: صحیح حدیث کی شرائط میں اختلاف، چنانچہ جس کے ہاں صحیح حدیث کی شرائط کم ہیں وہ کچھ ایسی احادیث کو لا محالہ طور پر صحیح قرار دے گا جسے دوسرے اہل علم صحیح قرار نہیں دیتے۔

دوسرا سبب: کسی مخصوص حدیث پر ان شرائط کے نفاذ میں اختلاف؛ کیونکہ کسی راوی کے عادل ہونے میں اختلاف یا سند کے متصل ہونے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ صحیح حدیث کی شرائط کے حوالے سے جو تفصیلات گزر چکی ہیں ان سب کے شرعی اور عقلی ہر طرح کے دلائل موجود ہیں، تاہم یہ شرائط توقیفی اور محض تعبدی نہیں ہیں، بلکہ یہ تمام شرائط عقلی اور معقول المعنی ہیں، ان شرائط کے مقاصد بھی واضح ہیں، یہ شرائط ہزاروں علمائے کرام کی محنتوں کا خلاصہ ہے، نیز ابتدائی تین صدیوں کے متقدم محدثین سمیت دیگر اہل علم کے افکار کا نچوڑ ہیں۔

اگر کسی کو مزید تفصیلات کی ضرورت ہو تو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب: ” الكفاية في علم الرواية ” کا مطالعہ کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب