جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

چار ماہ دس دن بيوہ كى عدت ركھى جانے ميں حكمت كيا ہے ؟

81139

تاریخ اشاعت : 14-11-2012

مشاہدات : 7073

سوال

اگر كسى عورت كا خاوند فوت ہو جائے تو شريعت نے اس كى عدت چار ماہ دس دن ركھى ہے، بيوہ كى اتنى لمبى عدت ركھے جانے ميں كيا حكمت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى يا رسول كريم صلى اللہ عليہ كے حكم كى حكمت معلوم كرنے كے دو طريقے ہيں:

پہلا طريقہ:

وہ حكمت كتاب و سنت كى نص ميں سے ثابت ہو جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ تھے مقرر نہيں كيا تھا مگر اس ليے كہ ہم معلوم كر ليں كہ كون اس رسول كى پيروى كرتا ہے اس سے ( جدا كر كے ) جو اپنى دونوں ايڑيوں پر پھر جاتا ہے البقرۃ ( 143 ).

اور ايك مقام پر اللہ تبارك و تعالى كا فرمان ہے:

ايسے رسول جو خوشخبرى دينے والے اور ڈرانے والے تھے، تا كہ لوگوں كے پاس رسولوں كے ( آ جانے كے ) بعد اللہ پر كوئى حجت نہ رہ جائے، اور اللہ تعالى ہميشہ سے سب پر غالب كمال حكمت والا ہے النساء ( 165 ).

اور جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" چنانچہ تم قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ يہ موت ياد دلاتى ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 976 ).

اس طرح كى اور بھى بہت سارى نصوص ہيں جن ميں حكمت كا بيان ہوا ہے.

دوسرا طريقہ:

علماء كرام استنباط اور اجتھاد كے ذريعہ كسى حكمت كو بيان كريں، ليكن ان كى بيان كردہ غلط بھى ہو سكتى ہے اور صحيح بھى ہو سكتى ہے، اور بعض اوقات تو اكثر لوگوں پر حكمت مخفى ہى رہتى ہے.

ليكن مومن شخص سے مطلوب يہى ہے كہ وہ ہر حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كو تسليم كرتے ہوئے اس پر عمل پيرا ہو اور يہ اعتقاد ركھے كہ اللہ سبحانہ و تعالى بہت ہى حكمت والا ہے، اور اس حكم ميں اس كى حكمت تامہ اور حجت بالغہ پائى جاتى ہے چاہے كسى كو سمجھ آئے يا نہ آئے، اللہ سبحانہ و تعالى جو چاہے كرتا ہے اس سے كوئى پوچھنے والا نہيں؛ ليكن مخلوق سے پوچھا جائيگا.

دوم:

اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوہ عورت كو چار ماہ دس دن عدت گزارنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور جو لوگ تم ميں سے فوت ہو جائيں اور بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس دن اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں، جب وہ اپنى عدت كو پہنچ جائيں تو تم پر كوئى گناہ نہيں جو وہ اپنے ساتھ معروف طريقہ سے كريں، جو تم كرتے ہو اللہ تعالى اس سے پورى طرح باخبر ہے البقرۃ ( 234 ).

اس آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے اس عدت كوئى صريح حكمت بيان نہيں فرمائى، چنانچہ اہل علم نے شرعى قواعد كے مناسب اور نسب اور عفت و عصمت اور عزت كے امور كا خيال كرتے ہوئے حكمت كا استنباط كيا ہے.

ابن كثير رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:

" سعيد بن مسيب اور ابو العاليہ وغيرہ نے بيان كيا ہے كہ: بيوہ كى عدت چار ماہ دس دن ركھنے ميں حكمت يہ ہے كہ حمل كے بارہ ميں معلوم ہو جائے كہ آيا كہيں حمل تو نہيں، جب يہ عرصہ انتظار كيا جائيگا تو اس سے حمل كے متعلق علم ہو جائيگا كہ حمل ہے يا نہيں.

جيسا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى صحيحين وغيرہ كى درج ذيل روايت ميں بيان ہوا ہے:

" يقينا تمہارى خلقت كو اس كى ماں كے پيٹ ميں چاليس يوم تك نطفہ ركھا جاتا ہے، اور پھر وہ اتنے ہى ايام ميں ايك لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اتنے ہى ايام ميں گوشت كا ٹكڑا بن جاتا ہے، پھر اس كى طرف ايك فرشتہ بھيجا جاتا ہے جو اس ميں روح پھونكتا ہے "

تو يہ چاليس ايام تين بار ہوں تو چار ماہ بنتے ہيں، اور اس كے بعد دس دن اور احتياط كے ہيں كيونكہ بعض اوقات كوئى مہينہ كم ہوتا ہے، اور پھر اس ميں حركت اور روح پھونكے جانے كے ليے يہ ايام ركھے گئے ہيں " واللہ تعالى اعلم.

سعيد بن عروبہ قتادہ رحمہ اللہ سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے سعيد بن مسيب رحمہ اللہ سے دريافت كيا كہ يہ دس دن كے متعلق كيا ہے ؟

ان كا جواب تھا: اس ميں روح پھونكى جاتى ہے.

اور الربيع بن انس رحمہ اللہ كہتے ہيں ميں نے ابو العاليہ سے عرض كيا:

چار ماہ كے ساتھ يہ دس دن كيوں ركھے گئے ؟

ان كا جواب تھا: اس ليے كہ ان ايام ميں اس بچہ ميں روح پھونكى جاتى ہے "

دونوں كو ابن جرير نے روايت كيا ہے " انتہى

امام شوكانى رحمہ اللہ فتح القدير ميں لكھتے ہيں:

" بيوہ كى عدت اتنى مقدار ميں ركھنے كى حكمت يہ ہے كہ غالبا بچہ تين ماہ ميں حركت كرنے لگتا ہے، اور بچى چار ماہ كى حركت كرنے لگتى ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس پر دس دن اور زائد اس ليے كيے كہ بعض اوقات بچہ كمزور ہوتا ہے اور كچھ ايام حركت ميں بھى تاخير ہو سكتى ہے ليكن اس عرصہ سے زائد تاخير نہيں ہوتى " انتہى

مزيد آپ زاد المسير ابن الجوزى ( 1 / 275 ) اور اعلام الموقعين ( 2 / 52 ) كا بھى مطالعہ كريں.

يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ كسى استباط كردہ حكمت كو مدنظر ركھتے ہوئے كسى شرعى حكم سے باہر نكلنا جائز نہيں.

اس ليے كسى كو بھى يہ كہنے كا حق نہيں كہ جب عدت ميں حكمت حمل كا ہونا يا نہ ہونا معلوم كرنا ہے تو پھر اس وقت جديد ميڈيكل آلات كے ذريعہ حمل ابتدائى ايام ميں ہى معلوم كيا جا سكتا ہے تو اس ليے عورت كے ليے اتنا عرصہ عدت گزارنے كى كوئى ضرورت نہيں.

ايسا كوئى شخص نہيں كہہ سكتا، كيونكہ مذكورہ حكمت تو علماء كرام نے استباط اور اجتھاد كے ذريعہ معلوم كى ہے، اور يہ غلط بھى ہو سكتى ہے اور يا پھر حكمت كا ايك جزء ہو سكتا ہے مكمل حكمت نہيں.

اس ليے قطعى حكم جس پر سب متفق بھى ہيں كو كسى استنباط كردہ حكمت كى بنا پر ترك كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ وہ حكمت غلط بھى ہو سكتى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب