سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

توبہ كے بعد ضرورت كے باوجود حرام مال ميں تصرف كا طريقہ

81915

تاریخ اشاعت : 26-05-2007

مشاہدات : 7392

سوال

ميں ايك عرب ملك ميں كئى برس سے بطور اكاؤٹنٹ ملازمت كر رہا ہوں، مجھے دوران ملازمت علم ہوا كہ يہ حرام ہے، اور ميرا شمار سود لكھنے والوں ميں ہوتا ہے، كيونكہ ميں اپنى كمپنى كے ليے بنك سے سود پر مطلوب قرض كى درخواستيں لكھتا ہوں، اور يہ عمل ہر وقت ميرى زندگى كو مكدر كيے ركھتا ہے، اب ميں اس واپس اپنے ملك جانا چاہتا ہوں، اور اپنے گھرانے كے ساتھ ايك نئى زندگى كا آغاز كرنے كے ليے جو كچھ بھى ميرے پاس ہے وہ اسى تنخواہ كا ہے!! چنانچہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
بعض افراد نے مجھے يہ كہا ہے كہ مجھے توبہ كرنى چاہيے اور ميں اس مال كو خرچ كردوں ليكن اس ميں سے خود كوئى فائدہ حاصل نہيں كر سكتا!!
اور ايك دوسرے شخص نے يہ كہا كہ مجھے اس سے توبہ تو كرنى ہوگى ليكن مال سے استفادہ كيا جا سكتا ہے، اور كثرت سے صدقہ و خيرات بھى كرنا ہوگى، يہ علم ميں رہے كہ ميرے پاس آمدنى كا كوئى اور ذريعہ نہيں، اور نہ ہى اس مال كے علاوہ كوئى اور راس المال ہے جس سے ميں نئى زندگى شروع كرسكوں، اور نہ ہى سركارى ملازمت حاصل ہونا ممكن ہے كيونكہ يہ بہت مشكل ہے... اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے اس كے متعلق مجھے معلومات فراہم كريں، كہ مجھے زندگى شروع كرنے كے ليے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سود لكھنے، يا اس كا حساب و كتاب ركھنے، يا سود حاصل كرنے كے ليے درخواستيں لكھنے، يا اس طرح كى كوئى اور ملازمت جس ميں سودى معاملات ميں تعاون ہوتا ہو جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہوتا ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈر جاؤ، يقينا اللہ تعالى بڑى سخت دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اور صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پانچ افراد لعنت فرمائى:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

اس ليے اس طرح كى ملازمت ترك كرنى واجب اور ضرورى ہے، اور صرف ايسے كام كى ملازمت كرنى چاہيے جو مباح ہو، اور پھر جو شخص بھى كوئى كام اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے، اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر عوض ديتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21113 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

جس كسى نے بھى حرام طريقے سے مال كمايا مثلا گانے بجانے كى اجرت، يا رشوت، يا نجومى اور كہانت كى كمائى، يا جھوٹى گواہى دے كر، يا سود كى لكھائى وغيرہ كر كے، يا اس طرح كے دوسرے حرام كام سے كمائى كى اور پھر وہ اللہ تعالى كے سامنے توبہ كر لے، اوراپنے كيے پر نادم ہو اور آئندہ ايسا عمل نہ كرنے كا عہد كرلے، اگر اس نے مال خرچ كر ليا ہو تو اس پر كچھ گناہ نہيں، اور اگر مال اس كے پاس ہو تو اس كے ليے اس مال مال كو نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، اور اگر وہ متاج اور ضرورتمند ہو تو وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس سے مال لے كر باقى مال سے چھٹكارا حاصل كر لے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر كسى دوسرے نے اسے حرام معاوضہ ديا اور اس نے وہ معاوضہ لے بھى ليا ہو، مثلا زانيہ، اور گانے بجانے والا، اور شراب فروخت كرنے والا اور جھوٹى گواہى دينے والا، اور اس طرح كے دوسرے افراد پھر وہ توبہ كر لے اور وہ معاوضہ اس كے پاس ہو تو ايك گروہ كا قول ہے كہ:

وہ اس معاوضہ اور مال كو اس كے مالك كو واپس كردے؛ كيونكہ وہ اس كا بعنيہ مال ہے، اور اس نے وہ مال شارع كے حكم سے نہيں ليا، اور نہ ہى مال كے مالك كو اس مال كے عوض كوئى مباح اور جائز نفع حاصل ہوا ہے.

اور ايك گروہ كہتا ہے كہ:

بلكہ اسے صدق دل كے ساتھ توبہ كر لينى چاہيے، اور ليا جانے والا مال واپس نہ كرے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور دونوں قولوں ميں زيادہ صحيح بھى يہى ہے " ... انتہى.

ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 389 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اس مسئلہ كو شرح وبسط كے ساتھ بيان كرتے ہوئے يہ فيصلہ كيا ہے كہ:

اس مال سے چھٹكارا اور خلاصى كرنا اور توبہ كى تكميل اسطرح ہو گى كہ: وہ مال صدقہ كر ديا جائے، اور اگر وہ اس كا متاج اور ضرورتمند ہو تو وہ بقدر حاجت اس مال سے ليكر باقى مال صدقہ كر دے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 778 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر يہ زانيہ اور باغيہ عورت اور يہ شراب فروخت كرنے والا شخص توبہ كر لے، اور وہ فقير اور مسكين ہوں تو ان كى ضرورت كے مطابق اس مال كو انہيں دينا جائز ہے، تو اگر وہ شخص تجارت كرنے، يا كوئى بنائى اور سوت كاتنے كى مہارت ركھے تو اس اس كے ليے راس المال ديا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 308 ).

اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ ڈاكٹر عبد اللہ بن محمد السعيدى كى كتاب " الربا فى المعاملات المصرفيۃ المعاصرۃ ( 2 / 779 - 874 ) كا مطالعہ كريں.

سوم:

شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہما اللہ كى سابقہ كلام سے يہ حاصل ہوتا ہے كہ:

اگر توبہ كرنے والا شخص اس مال كا محتاج اور ضرورتمند ہو تو وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس مال سے لے سكتا ہے، اور اس كے ليے اس مال ميں سے تجارت يا صنعت كے ليے راس المال لينا جائز ہے.

چہارم:

اس ليے كہ آپ كا كام ميں كچھ تو مباح اور جائز ہے، اور كچھ حرام تو آپ اس ميں حرام كا اندازہ لگائيں اور اس كے عوض ميں جتنا مال آپ كے پاس حرام ہے اس سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں، اور اگر آپ كے ليے اس كا اندازہ لگانا مشكل ہو تو آپ اس مال كے نصف سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" .... اور اگر اس كا مال حرام اور حلال كے ساتھ مختلط ہو اور اسے دونوں كى مقدار كا علم نہ ہو تو وہ اسے نصف نصف كر لے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 307 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق نصيب فرمائے اور آپ كو صحيح راہ اختيار كرنے كى توفيق دے، اور جس ميں آپ كى دنيا و آخرت كى سعادت ہے اس كام ميں آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كو يہ يقين كر لينا چاہيے كہ اللہ سبحانہ وتعالى ہى روزى رساں ہے، اور وہ بڑا ہى رحم كرنے والا اور مہربان ہے جو اپنے توبہ كرنے والے اور اس كى طرف رجوع كرنے والے كو كبھى اكيلا نہيں چھوڑتا، بلكہ اس پر اپنى رحمت كے خزانے كھول ديتا ہے، اور اس كے رزق ميں كشادگى فرما كر اس كے مال ميں بركت فرماتا كر اس پر اپنى رحمت كى بركھا برساتا ہے، كيونكہ وہ اپنے بندے كى توبہ كرنا پسند فرماتا اور اس كى ندامت سے خوش ہوتا ہے، اور احسان كا مقابلے ميں احسان عظيم فرماتا ہے.

اللہ جل شانہ كا فرمان ہے:

كيا وہ جانتے نہيں كہ اللہ تعالى اپنے بندوں كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور وہى صدقات كو قبول فرماتا ہے، اور يہ كہ اللہ ہى توبہ قبول كرنے والا اور رحمت كرنے والا ہے التوبۃ ( 104 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اسطرح ہے:

جو شخص بھى نيك اور صالح عمل كرے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ ايمان والا ہو تو ہم اسے يقينا نہايت بہتر زندگى عطا فرمائينگے اور ان كے نيك اعمال كا بہتر بدلہ بھى انہيں ضرور ضرور دينگے النحل ( 97 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہےگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب