سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كيا عليحدہ رہائش لے كر دينا بيوى كے حقوق ميں شامل ہوتا ہے ؟

81933

تاریخ اشاعت : 08-05-2012

مشاہدات : 6110

سوال

اگر والدين كے گھر ميں جگہ بھى ہو اور وہاں كوئى اور غير محرم نہ بھى ہو تو كيا پھر بھى بيوى كو والدين كے ساتھ ركھنا بيوى كے حقوق كے منافى ہوگا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى كا اپنے خاوند پر حق ہے كہ وہ بيوى كے ليے امن و امان والى رہائش مہيا كرے، اس ميں خاوند كى مالى استطاعت كو مدنظر ركھا جائيگا اور وہ اپنى مالى استطاعت كے مطابق بيوى كو رہائش مہيا كرنے كا پابند ہے، لہذا مالدار خاوند اپنے شايان شان رہائش بيوى كو لے كر دےگا، اور تنگدست پر اس طرح كى رہائش مہيا كرنا ہوگى جو اللہ نے اسے استطاعت دے ركھى ہے.

اگر بيوى كسى اور كو اپنے ساتھ ركھنے سے ضرر محسوس كرتى ہو تو خاوند اپنى بيوى كے ساتھ كسى اور كو نہيں ركھ سكتا مثلا خاوند اپنے والدين يا كسى دوسرى بيوى كى اولاد كو بيوى كى رضامندى كے بغير نہيں ركھ سكتا.

اور اگر خاوند كے والدين محتاج اور ضرورتمند ہو اور بيوى ان كے ساتھ رہنے ميں كوئى ضرر و نقصان محسوس نہيں كرتى تو ہم بيوى كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اس ضرورتمند كا خيال كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ خاوند كے والدين سے حسن سلوك كرنا خاوند كے ساتھ حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے.

اور ايك عقلمند خاوند ايسا كرنے پر اپنى بيوى كى قدر كرتا ہے، جس سے خاوند اور بيوى كے مابين تعلقات ميں اور زيادہ محبت و مودت پيدا ہوتى ہے.

اور اگر ممكن ہو سكے تو خاوند اپنے والدين كے ليے گھر بنائے، اور بيوى كے ليے ان كے قريب ہى گھر بنا دے تا كہ دونوں عليحدہ ہوں اور دونوں كو ان كى خدمت كرنے ميں بھى كوئى مشكل پيش نہ آ سكے، بہتر تو يہى ہے كيونكہ اس طرح والدين اور بيوى دونوں كو ہى حقوق مل جائيں گے، اور نہ ہى خاوند اور بيوى ميں كوئى اختلافات پيدا ہونگے، اور نہ ہى والدين كے ساتھ قطع رحمى ہو سكےگى.

رہائش كے بارہ ميں بيوى كے حقوق كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 7653 ) كے جواب ميں ہوچكا ہے آپ ا سكا مطالعہ ضرور كريں.

خاوند كے والدين كے ساتھ رہنے كى بنا پر خاوند اور بيوى كے مابين پيدا ہونے والے اختلافات اور مشكلات كو ديكھنے والا شخص علماء كرام كے اس قول كى حكمت معلوم كر سكتا ہے كہ بيوى كو عليحدہ ركھنا بيوى كے حقوق ميں شامل ہے.

ليكن اگر بيوى اپنے خاوند اور ساس سسر كے ساتھ حسن سلوك كرتے ہوئے اور خاص كر اگر ساس سسر خدمت كے محتاج ہوں اور بيوى ان كے ساتھ رہنے پر راضى ہو جائے تو ان شاء اللہ اسے اجروثواب حاصل ہوگا، ليكن اسے پھر صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اللہ تعالى ہى مددگار ہے اور اسى پر بھروسہ ہے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب