الحمد للہ.
عورت كے ليے بالوں كو سياہ كى بجائے كوئى اور رنگ كرنا جائز ہے، جبكہ ايسا كرنے ميں كفار عورتوں سے مشابہت نہ ہو، مثلا يہ وہ كسى كافرہ عورت يا كافرہ عورتوں كى جماعت كا مخصوص رنگ اور بال رنگنے كا مخصوص طريقہ ہو، يا صرف ايك چٹيا كو رنگ كيا جائے تو اس وقت ان كفار عورتوں كے ساتھ مشابہت جائز نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا بالوں كا كچھ حصہ مثلا بالوں كے كنارے يا صرف اوپر كا حصہ رنگنا جائز ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر بالوں كو سياہ كيا جائے تو يہ جائز نہيں، كيونكہ اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اور سفيد بالوں كو رنگ كرنے اور سياہ كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" اس بڑھاپے ( سفيد بالوں ) كو تبديل كرو اور سياہ رنگ سے اجتناب كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 5476 ).
اور بالوں كو سياہ كرنے والے كے ليے وعيد بھى وارد ہے، جو كہ درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں پائى جاتى ہے:
" آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے جو سياہ خضاب لگائينگے، جيسے كبوتر كى پوٹ ہوتى ہے، وہ جنت كى خوشبو تك حاصل نہيں كرينگے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) سنن نسائى ( 8 / 138 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 8153 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور يہ حديث سفيد بالوں كو سياہ ميں تبديل كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، ليكن سياہ كے علاوہ باقى رنگ كے متعلق تو اصل جواز ہى ہے، ليكن اگر يہ كافرہ اور فاجرہ عورتوں كے طريقہ اور ا نكى اشكال و انواع ميں ہو تو پھر اس اعتبار سے يہ بھى حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 5 / 109 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 120 ).
واللہ اعلم .