الحمد للہ.
اول:
آپ پر کسی بھی معین مذہب کی پیروی کرنا واجب نہیں ہے، آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ کسی بھی ایسے معتمد اہل علم سے سوال پوچھیں جس کے علم و فضل کا اعتراف سب لوگ کرتے ہوں، آپ ان کے بیان کردہ دین کے احکامات پر عمل کرتے جائیں، اس کے بعد اگر اہل علم کے مابین کسی مسئلے میں اختلاف ہے تو آپ کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیونکہ یہ اختلاف اللہ تعالی کے ارادے و حکمت سے ہے۔
لہذا جو مسلمان تلاش حق کیلیے اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کیلیے واجب یہی ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھے اور عمل کرے اس کی اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ہے۔
دوم:
پہلے سوال نمبر: (11497) کے جواب میں بے وضگی کی صورت میں وضو کرنے کی تفصیلات اور طریقہ گزر چکا ہے اس لیے اس کا مطالعہ کریں۔
سوم:
غسل جنابت یا بڑی پاکی کیلیے دو طریقے ہیں:
کفایت کرنے والا طریقہ:
مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اس طریقے کے مطابق غسل کریں گےتو آپ کا غسل ہو جائے گا اور حدث اکبر سے پاکیزگی بھی مل جائے گی، اور اس طریقے میں خلل پیدا ہونے سے غسل صحیح نہیں ہو گا۔
غسل کا مکمل اور مستحب طریقہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس انداز سے غسل کرنا مستحب ہے ، واجب نہیں ہے۔
کفایت کرنے والا طریقہ یہ ہے کہ:
1- جنابت، حیض یا نفاس سے پاکی حاصل کرنے کی نیت کرے۔
2- اپنے سارے جسم پر پانی ڈالے، اپنے بالوں کی جڑوں کو اچھی طرح تر کرے اور جہاں پانی پہنچنے میں کچھ دقت ہو وہاں تک بھی پانی پہنچائے، جیسے کہ بغلیں، گھٹنوں کی اندرونی جانب وغیرہ، پھر اہل علم کے صحیح موقف کے مطابق کلی کرے اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (1/423) میں کہتے ہیں:
"اس بات کی دلیل کہ صرف اتنا غسل کفایت کر جائے گا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَإِن كُنتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُواْ ) اور اگر تم جنبی ہو تو اچھی طرح پاکی حاصل کرو۔[المائدة:6] اللہ تعالی نے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا، لہذا اگر کوئی شخص ایک بار سارے جسم پر پانی بہا لے تو اس پر یہ بات صادق آتی ہے کہ اس نے اچھی طرح پاکی حاصل کر لی ہے" انتہی
غسل کا مکمل طریقہ کار درج ذیل ہے:
1- جنابت، حیض یا نفاس سے پاکی حاصل کرنے کی نیت دل سے کرے ۔
2- بسم اللہ پڑھے، اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے اور اپنی شرمگاہ کو بھی غلاظت سے صاف کرے۔
3- نماز کی طرح مکمل وضو کرے۔
4- اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے اور بالوں کو ملے حتی کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
5- اپنے پورے بدن پر پانی بہائے اس کیلیے پہلے اپنے جسم کی دائیں جانب پانی ڈالے، پھر بائیں جانب، اور اس دوران اپنے دونوں ہاتھوں سے جسم کو ملے تا کہ ہر جگہ تک پانی پہنچ جائے۔
اس انداز سے غسل کرنے کی دلیل یہ حدیث ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے اور پھر نماز جیسا مکمل وضو فرماتے، پھر غسل کرتے اور اپنے بالوں کا انگلیوں سے خلال کرتے یہاں تک کہ جب آپ کو ظن غالب ہو جاتا کہ آپ نے اپنی جلد کو تر کر دیا ہےتو تین مرتبہ اپنے جسم پر پانی بہاتے اور سارا جسم دھوتے" بخاری: (248) مسلم: (316)
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غسل جنابت فرماتے تو دودھ کے ڈول جتنا برتن منگواتے، آپ اسے اپنی ہتھیلی سے پکڑ لیتے اور اپنے سر کی دائیں جانب سے شروع کرتے پھر بائیں جانب ڈالتے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے سر پر ڈالتے" بخاری: (258) مسلم: (318)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (10790) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس مسئلے میں اہم احکامات میں سے یہ بھی ہے کہ:
اگر غسل جنابت یا بڑی پاکی کا ہو تو پھر یہ وضو سے کفایت کر سکتا ہے دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر دورانِ غسل ناقض وضو کوئی عمل ہو گیا ہے تو پھر دوبارہ وضو کرنا ہوگا، مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (68854) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.