ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

خاوند كے ظلم كى بنا پر بيوى نے طلاق كا مطالبہ كر ديا

82439

تاریخ اشاعت : 25-01-2012

مشاہدات : 4200

سوال

ہمارى شادى كو گيارہ ماہ ہوئے ہيں اور دو روز قبل ميرے خاوند نے مجھے طلاق دے دى، اس نے ہمارى اس طلاق كو خلع شمار كيا ہے، كيونكہ ميں نے ميرے خاوند كے ذمہ جو رقم تھى ميں اس سے دستبردار ہوگئى، اس ليے كہ ميں نے سمجھا كہ اس طلاق كو روكنے كے ليے يہى رقم كام كر سكتى ہے، نہ كہ ہمارے درميان محبت و معاشرت؛ اس ليے ميں نے اس رقم سے دستردارى كا اعلان كر ديا، اور اس نے بڑى سہولت سے مجھے طلاق دے دى.
ميں اپنے خاوند كو بہت پسند كرتى ہوں، اللہ تعالى سے ميرى دعا تھى كہ طلاق نہ ہو، اور ميں نے استخارہ بھى كيا تھا اور عدالت ميں خاموش رہى، ميرى نظر قاضى كو يہ كہہ رہى تھى كہ يہ طلاق نہيں ہونى چاہيے، اور جب قاضى نے مجھے دريافت كيا تم موافق اور مطمئن ہو تو ميں نے اثبات ميں جواب ديا تاكہ ميرى عزت محفوظ رہے جسے ميرے خاوند اور اس كى پہلى بيوى نے مجروح كيا تھا ( كيونكہ ميں اس كى دوسرى بيوى ہوں ) ميں درج كے بارہ ميں استفسار كرنا چاہتى ہوں:
اول:
ہمارى طلاق سے اللہ رحمن كا عرش ہل گيا، اس عبارت كا معنى كيا ہے ؟
دوم:
كيا اپنى عزت محفوظ ركھنے كے ليے ميرا طلاق طلب كرنے سے اللہ ناراض تو نہيں ہوا، اور اس ليے كہ ميرا خاوند اخراجات ميں عدل نہيں كرتا تھا، اور بعض اوقات رات بسر كرنے ميں بھى عدل نہيں كرتا تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے، اور آپ كو دنيا و آخرت ميں سعادت و عافيت عطا كرے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد جيسا نعم البدل دے.

يہ علم ميں ركھيں كہ آزمائش و ابتلاء تو دنياوى زندگى كى سنت اور طريقہ ہے، اور مسلمن شخص كو چاہيے كہ وہ مصائب اور تكاليف برداشت كرنے كے ليے اپنے دل كو تيار ركھے اور لوگوں ميں سب سے زيادہ اور بڑى مصيبت اس شخص كو پہنچتى ہے جس كا كوئى دوست يا محبوب فوت ہو جائے يا غائب ہو يا پھر جدائى ہو جائے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى اپنے فضل و كرم اور احسان كے ساتھ لوگوں پر اپنى رحمت كے دروازے كھولتا رہتا ہے، اور ان كے ليے دوست و احباب ہونے ميں آسانى پيدا كرتا ہے، اور ايسے لوگ فراہم كرتا ہے جو اس كى خير و بھلائى پر مدد و تعاون كرتے ہيں، اس طرح اس كے دل سے بوجھ ہلكا ہو جاتا ہے اور وحشت جاتى رہتى ہے.

اس ليے جو كچھ ہو چكا آپ اس پر غمزدہ مت ہوں، كيونكہ بندے كو جو تكليف آنے والى ہوتى ہے وہ آ كر رہتى ہے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ممكن ہے كہ تم كسى چيز كو برى جانو اور دراصل وہى تمہارے ليے بھلى ہو، اور يہ ممكن ہے كہ تم كسى چيز كو اچھى سمجھو حالانكہ وہ تمہارے ليے برى ہو، حقيقى علم اللہ ہى كو ہے، تم محض بے خبر ہو البقرۃ ( 213 ).

دوم:

اگر كوئى ايسا سبب ہو جو طلاق طلب كرنا مباح كرتا ہو تو عورت كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے، مثلا اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق ميں كوتاہى كرتا ہو يا پھر بيوى پر ظلم كرے اور اس كے ساتھ برے سلوك سے پيش آتا ہو، اور كسى نصيحت كرنے والے كى نصيحت قبول نہ كرے اور نہ ہى معاملات سدھارے اور بہتر طريقہ سے بيوى كے ساتھ حسن معاشرت نہ كرے تو بيوى كے ليے طلاق طلب كرنا مباح ہے.

ليكن بغير كسى سبب كے عورت كا طلاق كرنا حرام بلكہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى تنگى كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى بغير كسى ايسى تنگى كے جس كى بنا پر عليحدگى طلب كرنے پر مجبور ہونا پڑے.

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 410 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند سے طلاق طلب كرنے كى ترہيب ميں جتنى بھى احاديث وارد ہيں انہيں اس پر محمول كيا جائيگا كہ اگر كوئى ايسا سبب نہ پايا جائے جو طلاق طلب كرنے كو مباح كرتا ہو " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 402 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 9481 ) اور ( 12496 ) اور ( 1859 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور خلع كرنا بھى جائز اس صورت ميں جائز ہے جب اس كا كوئى شرعى سبب ہو، تا كہ ظلم مٹايا جائے يا پھر حقوق كى حفاظت ہو، يا اس كے علاوہ كوئى اور عذر پايا جائے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 1859 ) ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

بغير كسى سبب يا پھر عذر كے خلع طلب كرنا حرام ہے.

حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" خلع لينے والياں منافقات ميں سے ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1186 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3461 )، ليكن نسائى اور ترمذى نے اس حديث كو ضعيف كہا ہے.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

امام احمد رحمہ اللہ نے اس حديث كو بطور حجت اور دليل ذكر كيا ہے، اور امام احمد اس كى تصحيح كى طرح مائل ہيں جيسا كہ فتح البارى ( 9 / 403 ) ميں بيان كيا ہے.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 248 ).

اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 1186 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى: وہ عورتيں جو اپنے خاوند سے بغير كسى سبب اور تنگى كے طلاق اور خلع طلب كرتى ہيں " انتہى

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 409 ).

سوم:

جب خاوند ايك سے زائد شادياں كرے تو اس پر واجب ہے كہ وہ شادى كى شرط پورى كرے جبكہ اللہ كا فرمان ہے:

اگر تمہيں خدشہ ہو كہ عدل نہيں كر سكو گے تو پھر ايك ہى كافى ہے النساء ( 3 ).

اگر اسے علم ہو جائے كہ وہ كسى ايك بيوى كے حق ميں كوتاہى كريگا تو اس كے ليے اسے معلق كرنا اور اس پر ظلم كرنا جائز نہيں، بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ اس كا نفقہ اور مبيت يعنى شب بسرى اور معاشرت كو اچھے طريقہ سے ادا كر كے اس حق ادا كرے، اور سب بيويوں كے مابين عدل كرے، اگر ايسا نہيں كر سكتا تو پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دے اور احسان يہى ہے كہ وہ عورت كا كوئى مال نہ لے.

اور آپ سوال نمبر ( 45600 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.

اور اگر خاوند احسان كے ساتھ چھوڑنے سے انكار كر دے اور بيوى پر ظلم كرنے سے بھى باز نہ آئے اور اس كى پرواہ نہ كرے اور بيوى اس سے جلدى فارغ ہونے كى رغبت ركھتى ہو چاہے اس كے ليے اسے معاوضہ بھى ادا كرنا پڑے جس سے راضى ہو كر خاوند اسے چھوڑ دے تو عورت كو ايسا كرنے كا حق حاصل ہے اور گناہ خاوند پر ہوگا، اور اس صورت ميں جو مال وہ بيوى سے لے رہا ہے وہ حرام ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 42532 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

چہارم:

رہا يہ سوال كہ: طلاق سے اللہ رحمن كا عرش ہل جاتا ہے ؟

اس سلسلہ ميں كوئى صحيح دليل نہيں ملتى، بلكہ اس كے بارہ ميں جو حديث مروى ہے وہ موضوع و من گھڑت اور جھوٹ ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 43498 ) ميں بيان ہو چكى ہے اس كو ديكھا جا سكتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب