سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اہل سنت كے مخالف عقيدہ پر مبنى كتابيں فروخت كرنے والے كو كمپيوٹر پروگرام بيچنا

82551

تاریخ اشاعت : 10-04-2007

مشاہدات : 6461

سوال

ہمارى كمپنى پروگرام ( سٹوروں اور حساب و كتاب ركھنے والے ) فروخت كرتى ہے، اس وقت ہميں ايك پروگرام كا ارڈر ملا ہے جس ايك سٹيشنرى ميں موجودہ كتاب اور فروخت كردہ اشياء كا حساب ركھنے كے ليے ہے، اس كا مالك بدعتى ہے اور ان لوگوں ميں سے ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام پر سب و شتم كرتے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات پر لعن طعن كرتے ہيں.
اس دوكان كا مالك اپنے خاص مسلك كى كتابيں فروخت كريگا جن ميں شرعى مخالفات پائى جاتى ہيں، كيا ہمارے ليے انہيں يہ پروگرام فروخت كرنا جائز ہے، اور كيا ہم پر كوئى گناہ ہوگا ؟
اور كيا اگر ہم اسے پروگرام فروخت كر ديتے ہيں تو كيا ہم اس گناہ اور باطل عقيدہ كے نشر كرنے ميں معاون و مدد گار ہونگے ؟
حالانكہ وہ يہ كتابيں صرف اپنے مسلك كے پيروكاروں كو ہى فروخت كرےگا، ہم تو صرف اس كى فروخت ہونے والى اشياء كى ترتيب اور حساب ركھنے ميں معاونت كرينگے، يہ علم ميں رہے كہ اس وجہ سے ہم اپنى فروخت ہونے والى اشياء كے نفع ميں سے بہت زيادہ صدقہ بھى كرينگے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ كو يہ علم ہو كہ اس پروگرام سے اللہ تعالى ارو اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى و معصيت ميں مدد اور تعاون ليا جا رہا ہے تو پھر آپ كے ليے ايسے شخص كو يہ پروگرام فروخت كرنا جائز نہيں، مثلا سودى بنكوں يا جو اہل سنت كے عقيدہ كے مخالف كتابيں فروخت كرتا ہو؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور خير كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).

اور فقھاء كرام كا يہ فيصلہ ہے كہ جس كے متعلق علم ہو جائے كہ يہ اسے معصيت و نافرمانى ميں استعمال كريگا تو اسے وہ چيز فروخت كرنى يا كرايہ پر دينى جائز نہيں ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس كا اجمالى طور پر يہ ہےكہ: جس شخص كے متعلق يہ اعتقاد ہو كہ وہ اس سے شراب كشيد كريگا تو اسے جوس فروخت كرنا حرام ہے، پھر وہ كہتے ہيں: اور ہر اس چيز كا حكم بھى اسى طرح ہے جس سے حرام كا مقصد ہو، مثلا حربى كافروں كو اسلحہ فروخت كرنا، يا ڈاكہ ڈالنے والے لٹيروں كو، يا فتنہ و فساد ميں، اور اسى طرح گانے كے ليے لونڈى فروخت كرنا، يا اسے اجرت پر بھى دينا، يا شراب كشيد كرنے كے ليے گھر كرايہ پر دينا، يا چرچ اور كنيسہ بنانے كے ليے گھر كرايہ پر دينا، اور اس طرح كى دوسرى اشياء تو يہ حرام ہے، اور ايسا معاہدہ باطل ہو گا " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 154 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس چيز سے حرام كام كرنے كا مقصد ہو وہ چيز فروخت كرنى صحيح نہيں، مثلا اگر علم ہو جائے كہ جوس شراب كشيد كرنے كے ليے خريدا جا رہا ہے، جيسا كہ امام احمد وغيرہ كا مسلك ہے، يا اس كے متعلق گمان ہو كہ وہ اس سے شراب كشيد كريگا، يہ امام احمد كا ايك قول ہے اس كى تائيد اس سے ہوتى ہے كہ: اصحاب ( امام احمد كے اصحاب ) كا كہنا ہے:

اگر مالك مكان يہ گمان كرے كہ كرايہ دار اسے كسى معصيت كے ليے كرايہ پر لے رہا ہے مثلا شراب فروخت كرنے كے ليے يا كوئى اورحرام كام تو اسے وہ گھر كرايہ پردينا جائز نہيں، اور اس كا كرايہ كا معاہدہ صحيح نہيں ہوگا، اور كرايہ اور فروخت كرنا برابر ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 5 / 388 ).

ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" اور ہر وہ لباس جس كے متعلق يہ گمان ہو كہ اس سے معصيت و نافرمانى ميں مدد لى جائيگى تو اسے ايسے شخص كے ليے فروخت كرنا يا سلائى كر كے دينا جو اس سے معصيت و نافرمانى اور ظلم ميں مدد حاصل كرے جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: شرح العمدۃ ( 4 / 386 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جمہور علماء كا مسلك يہ ہے كہ ہر وہ چيز جس سے حرام كام لينا مقصد ہو، اور وہ معاملہ جو معصيت كى طرف لے جائے وہ حرام ہے، اگر كسى خريدار كے متعلق يہ علم ہو جائے كہ وہ اس سے يہ ( حرام ) كام كرنا چاہتا ہے تو اسے وہ چيز فروخت كرنى جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 9 / 213 ).

محترم سائل كو يہ بات جان لينى چاہيے كہ جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كے نعم البدل ميں اس سے بھى اچھى اور بہتر چيز عطا فرماتا ہے، جيسا كہ يہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور يہ كہ اللہ تعالى كے پاس جو اجروثواب اور جنت ہے وہ صرف اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كر كے ہى حاصل كي جا سكتى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى فرمايا ہے:

" بلا شبہ روح القدس نے ميرے دل ميں يہ بات القاء كى ہے كہ كوئى بھى جان اس وقت تك فوت نہيں ہوگى جب تك كہ وہ اپنا وقت پورا نہ كر لے، اور اپنى سارى روزى حاصل نہ كر لے، تو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور طلب ميں اچھا طريقہ اختيار كرو، اور تم ميں سے كسى ايك كو روزى ميں تاخير اور كمى اس پر نہ ابھار دے كہ وہ اللہ تعالى كى نافرمانى كر كے روزى تلاش كرنے لگے، كيونكہ اللہ تعالى كے پاس جو كچھ ہے وہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كے بغير حاصل نہيں ہو سكتا "

اسے ابو نعيم نے " الحليۃ " ميں ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2085 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے اللہ تعالى اس كے ليے چھٹكارے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرے تو اللہ تعالى اس كو كافى ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہيگا، يقينا اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے سيدھى راہ كى توفيق طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب