الحمد للہ.
خاوند نے بيوى سے دخول كر ليا ہو اور بيوى طلاق كا مطالبہ كرے تو اس كى دو حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
بيوى اس ليے مطالبہ كا مطالبہ كرتى ہو كہ خاوند اس كے حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كر رہا ہو، يا پھر خاوند ميں كوئى ايسى بات پائى جاتى ہو جس سے بيوى كو اذيت ہو اور بيوى كے حقوق ميں مانع اور ركاوٹ كا باعث ہو، يا پھر خاوند تباہى والے گناہ اور معصيت كا مرتكب ہوتا ہو، اس كے علاوہ دوسرے اسباب جن كى بنا پر طلاق طلب كرنا مباح ہو جاتى ہے اور اس كا فيصلہ شرعى قاضى ہى كريگا كہ آيا يہ سبب صحيح ہے يا نہيں.
اگر اسباب صحيح ہوں تو اس صورت ميں خاوند پر واجب ہے كہ وہ بيوى كو طلاق دے اور اسے پورے حقوق بھى ادا كرے وہ حقوق درج ذيل ہيں:
1 ـ پورا مہر، چاہے وہ موجل ہو يا غير موجل ـ اگر باقى مانندہ بھى ہو ـ يہ سب ادا كرنا ہوگا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر اس سے دخول كر ليا تو اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى وجہ سے پورا مہر دينا ہوگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1840 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 ـ اگر طلاق رجعى يعنى پہلى يا دوسرى طلاق ہو تو بيوى كو دوران عدت كھانے پينے اور رہائش اور لباس كا ميانہ روى سے خرچ دينا.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" مطلقہ بيوى جب تك عدت ميں ہو تو اسے نفقہ اور رہائش اور لباس كا وہى كچھ حاصل ہوگا جو بيويوں كو حاصل ہوتا ہے " انتہى
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 317 ).
اور اگر طلاق رجعى نہ ہو مثلا تيسرى طلاق ہو تو پھر نہ تو بيوى كو نفقہ ملےگا اور نہ ہى رہائش.
امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كو ان كے خاوند نے تيسرى طلاق دے دى تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ انہيں كيا نفقہ ملےگا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہ تو اس كے ليے نفقہ ہے اور نہ ہى رہائش "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1480 ).
اس ليے اگر مطلقہ بيوى اس كے بچوں كى پرورش بھى كر رہى ہو تو اس صورت ميں اسے درد ذيل بھى ادا كرنا واجب ہو گا:
3 ـ بچوں كى پرورش اور دودھ پلانے كى اجرت.
4 ـ اولاد كا نفقہ اور اخراجات.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور مائيں اپنى اولاد كو مكمل دو برس دودھ پلائيں جن كا ارادہ دودھ پلانے كى مدت بالكل پورى كرنے كا ہو، اور جن كے بچے ہيں ان كے ذمہ ان كا روٹى كپڑا ہے دو دستور كے مطابق ہو، ہر شخص كو اتنى ہى تكليف دى جاتى ہے جتنى اس ميں طاقت ہے البقرۃ ( 233 ).
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماں كے ليے جو اپنے بچے كو دودھ پلا رہى ہو بچے كے والد پر اس كا نفقہ واجب كيا ہے اور يہ اس صورت ميں ہو گا جب وہ اس كے عقد نكاح ميں ہو يا پھر مطلقہ ہو تو بچے كے باپ پر ماں كا خرچ واجب ہے.
ديكھيں: تفسير السعدى ( 105 ).
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" تين طلاق والى عورت كے خاوند پر اس عورت كا نفقہ نہيں ہے، ليكن وہ حمل كى بنا پر اس پر خرچ كريگا، اس بنا پر حمل كى حالت ميں حمل پر جو بھى خرچ ہوگا اس كى ادائيگى خاوند پر واجب ہے، اور وضع حمل كے بعد خاص كر حمل پر خرچ كرنا واجب ہوگا: يعنى رضاعت ـ دودھ ـ كى اجرت اور اسى طرح بچے كا لباس وغيرہ يہ سب كچھ باپ كے ذمہ ہے، ليكن وضع حمل كے بعد ماں كا كھانا والد پر نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ حمل والياں ہوں تو وضع حمل ہونے تك ان پر خرچ كرو الطلاق ( 6 ).
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 147 ) سوال نمبر ( 8 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" شافعيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ پرورش كرنے والى عورت كو پرورش كے عرصہ ميں پرورش كى اجرت طلب كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے وہ پرورش كرنے والى ماں ہو يا كوئى دوسرى عورت؛ كيونكہ بچے كى پرورش ماں پر واجب نہيں، اور اگر وہ پرورش كرنے اور ديكھ بھال نہيں كرتى تو اس پر بالكل جبر نہيں كيا جا سكتا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 311 ).
اس كى اجرت اور نفقہ كے تحديد كے ليے قاضى سے رجوع كرنا پڑيگا.
خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى پر تنگى كرے تا كہ وہ اپنے سابقہ حقوق ميں سے كسى حق سے دستبردار ہو جائے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 42532 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.
دوسرى حالت:
عورت خاوند كى جانب سے بغير كسى سبب كے طلاق كا مطالبہ كرے، تو اس صورت ميں خاوند كے ادا كردہ مہر واپس لينے كاحق حاصل ہے كہ وہ طلاق كے مقابلہ ميں مہر واپس كرے اور اسے خلع كا نام ديا جاتا ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ درج سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:
سوال نمبر ( 1859 ) اور ( 26247 ) اور ( 34579 ).
اس حالت ميں مندرجہ بالا چار حقوق ميں سے صرف رضاعت اور پرورش كى اجرت اور دودھ پيتے بچے كا خرچ ہى لازم ہوگا.
عبد الرزاق نے شعبى سے روايت كيا ہے كہ ان سے خلع حاصل كرنے والى عورت كے نفقہ كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا:
وہ اس پر خرچ كيسے كريگا حالانكہ وہ تو خود اس سے لے رہا ہے ؟!
مصنف عبد الرزاق ( 4 / 90 ).
اور اس ليے بھى كہ جب خلع ہو جائے تو پھر رجوع نہيں ہو سكتا، يہ طلاق بائن كى طرح ہے لہذا اس كے ليے نفقہ بھى نہيں.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" طلاق بائن والى ( غير حاملہ ) عورت كو نہ تو نفقہ ملےگا اور نہ ہى رہائش كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح سنت سے يہى ثابت ہے، بلكہ يہ كتاب اللہ كے بھى موافق ہے اور قياس كا تقاضا بھى يہى ہے اور اہلحديث فقھاء كا مسلك بھى يہى ہے "
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 378 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 49821 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .