الحمد للہ.
اول:
كسى شخص كو معصيت اور نافرمانى كرنے كے ليے دوكان يا گھر كرايہ پر دينا جائز نہيں، اس ميں سودى بنك كو عمارت كرايہ پردينا بھى شامل ہے؛ كيونكہ يہ گناہ و ظلم وزيادتى پر واضح اور كھلى اعانت ہے، اس ليے كہ عمارت كے مالك كو يہ علم ہے كہ اس نے يہ جگہ اس ليے دى ہے كہ يہاں حرام معاملات مثلا سود وغيرہ كا لين دين كيا جائے.
بہوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ايسے شخص كو گھر كرايہ پر دينا جائز نہيں جو اسے چرچ اور كنيسہ بنالے، يا راہب كى كٹيا، يا شراب فروخت كا اڈا، يا قمار بازى وغيرہ كے ليے.
چاہے معاہدے ميں اس كى شرط ركھى جائے يا اسے كسى قرينہ سے اس كا علم ہو جائے؛ كيونكہ يہ حرام فعل ہے، اور اس كے ليے كرايہ پر دينا جائز نہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 2 / 358 ).
دوم:
سودى بنك ميں پيسے ركھنے حرام ہيں، چاہے وہ سود پر ركھے جائيں يا سود كے بغير، اور فائدہ كے ساتھ يا بغير فائدہ كے؛ كيونكہ بنك اس رقم پر سود لےگا اور سودى قرض ديگا.
ليكن اہل علم نے ايك خاص حالت كو اس سے مستثنى كيا ہے وہ يہ كہ: جب انسان كو اپنا مال چورى ہونے كا خدشہ ہو اور حفاظت كے ليے كوئى مامون جگہ نہ ملے تو اس كے سودى بنك ميں ضرورت كے تحت رقم ركھنى جائز ہے، كيونكہ ضرروت ممنوعہ چيز كو مباح كر ديتى ہے.
تو اس وقت اس پر لازم ہے كہ وہ اپنے اكاؤنٹ ميں بغير كسى فائدہ كے رقم جمع كرائے، اس ليے كہ ضرورت كو اس كى قدر كے مطابق ہى ركھا جائيگا، اور وہ شخص اپنا مال محفوظ ركھنے پر مجبور ہے، نہ كہ سودى لين دين كرنے پر.
سودى بنك ميں رقم ركھنے كى شروط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22392 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .