الحمد للہ.
بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: عقيقہ قربانى كى طرح ہے اور اس كے احكام قربانى والے ہى ہيں.
اور اسے قربانى كے گوشت كى طرح ہى تقسيم كيا جائيگا، اور انہوں نے عقيقہ كے جانور كے ليے شروط بھى لگائى ہيں كہ وہ لنگڑى، كانى، اور اور واضح بيمار، اور شديد كمزور نہ ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور كھانے پينے اور ہديہ اور صدقہ كرنے ميں اس كا طريقہ اسى طرح ہے ـ يعنى عقيقہ كا طريقہ بھى قربانى كے طريقہ جيسا ہى ہے .. ـ امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے.
اور ابن سيرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے گوشت كا جو چاہو كرو، اور ابن جريج رحمہ اللہ كہتے ہيں: اسے پانى اور نمك ميں پكا كر پڑوسيوں اور دوست و احباب ميں تقسيم كرو، اور اس ميں سے صدقہ نہ كرو.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے ابن سيرين كا قول بيان كيا، جو اس بات كى دليل ہے كہ امام احمد بھى اسى كے قائل ہيں، اور ان سے سوال كيا گيا كہ كيا اس ميں سے خود بھى كھائے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: ميں يہ نہيں كہتا كہ وہ سارا خود ہى كھائے اور اسميں سے صدقہ كچھ بھى نہ كرے.
اور اسے قربانى پر قياس كرنا زيادہ مشابہ ہے كيونكہ يہ مشروع ہے اور واجب نہيں، تو يہ قربانى كےمشابہ ہوا، اور اس ليے بھى كہ يہ صفات اور عمر اور قدر و شروط وغيرہ ميں قربانى كے مشابہ ہے تو مصرف ميں بھى اس كے مشابہ ہو گا... "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 366 ).
اور شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آيا اس ميں وہى شروط ہونگى جو قربانى ميں پائى جاتى ہيں ؟
شافعيہ كے ہاں اس ميں دو طريقے ہيں، اور مطلقا دو بكريوں سے استدلال كيا جاتا ہے كہ اس ميں كوئى شرط نہيں، اور يہى حق ہے "
ديكھيں: نيل الاوطار ( 5 / 231 ).
قربانى اور عقيقہ ميں كچھ فرق بيان كيے گئے جو اس كى دليل ہيں كہ عقيقہ ہر چيز ميں قربانى كى طرح نہيں.
تو اسطرح يہ ثابت ہوا كہ سنت ميں عقيقہ كى تقسيم ميں كوئى معين طريقہ وارد نہيں، اور بچہ پيدا ہونے كى خوشى ميں اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے، اور اسے شيطان سے آزادى اور اس سے دور ركھنے كے ليے خون بہا كر اللہ كا قرب حاصل كرنا مراد ہے، جيسا كہ حديث سے استدلال ہوتا ہے: " ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے "
رہا اسكے گوشت كا حكم تو آپ كے ليے حلال ہے آپ جو چاہيں كريں، چاہيں تو خود بھى كھائيں اور اپنے اہل و عيال كو بھى كھلائيں، يا پھر اسے صدقہ كر ديں، يا كچھ كھا ليں، اور كچھ صدقہ كر ديں، ابن سيرين كا قول يہى ہے، اورامام احمد بھى اسى كا قائل ہيں.
واللہ اعلم .