الحمد للہ.
جب امام ـ سورۃ فاتحہ كے علاوہ ـ قرآت ميں غلطى كرے جس سے معنى نہ بدلتا ہو تو آپ پر اس كى غلطى كى تصحيح واجب نہيں، اور ان امور سے امام بچ نہيں سكتا، ليكن نماز كے بعد امام كو اس كے متعلق بتانا بہتر ہے كيونكہ يہ اس كے حفظ كے ليے فائدہ مند ہے.
اور اگر علم ہونے كے باوجود امام غلطى كى تصحيح كرنے سے انكار كر دے تو اس كى دو حالتيں ہيں:
ـ اگر غلطى كى بنا پر معنى ميں خلل پيدا ہوتا ہو، اور امام كو غلطى كا علم بھى ہو چكا ہو اور بتانے كے باوجود وہ اس كى تصحيح كرنے سے انكار كر دے تو آپ پر نماز لوٹانا واجب ہے، ليكن اگر وہ غلطى پر اصرار كرے تو آپ كو علم كيسے ہوا كہ اسے علم ہو چكا ہے اور وہ اپنى غلطى پر اصرار كر رہا ہے؟
ليكن اگر غلطى سے معنى ميں خلل پيدا نہيں ہوتا تو آپ پر نماز لوٹانا واجب نہيں، بلكہ آپ امام كو نرمى اور بہتر طريقہ سے نصحيت كريں، اور اسے بتائيں كہ امام كا كچھ آيات بھول جانا كوئى عيب كى بات نہيں، افضل الخلق اور اللہ تعالى كى مخلوق ميں سب سے افضل ترين شخص محمد صلى اللہ عليہ و سلم بھى بھول گئے تھے، اور ان كے مقتدي صحابہ كرام نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو ياد دلايا، جيسا كہ حديث ميں وارد ہے.
الشيخ سعد الحميد
رہا مسئلہ خطبہ جمعہ ميں تصحيح كا تو يہ ان حالات ميں ہو سكتى ہے جن ميں دوران خطبہ كلام كرنا جائز ہو، مثلا خطيب كسى آيت ميں غلطى كرے جو اس كے معنى كو كسى اور طرف لے جائے، مثلا كسى آيت كا كوئى جملہ ساقط ہو جائے، يا اس كے مشابہ وغيرہ، تو اس بنا پر دوران خطبہ اس كى تصحيح كرنا اس ممانعت اور نہى ميں نہيں آئيگى جو حديث ميں وارد ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 140 ).
واللہ اعلم .