الحمد للہ.
اول:
واسطہ سفارش كو كہا جاتا ہے، بعض اوقات تو سفارش اچھى اور بعض اوقات برى ہوتى ہے، اچھى سفارش وہ ہے جو خير و بھلائى كے كاموں ميں معاونت كرے، اور اس سفارش سے دوسروں كے حقوق پر زيادتى كيے بغير يا كسى ايسے شخص كو جو اس كا مستحق نہ ہو مقدم كيے بغير كسى مباح كام كا حصول ممكن ہو.
اور برى سفارش يہ ہے كہ: جو شر و برائى ميں معاون ثابت ہو، يا پھر ظلم و ستم كا وسيلہ بن رہى ہو، اور كسى ايسے شخص كو آگے لانے كا باعث ہو جو مستحق نہيں، بعض اوقات سفارش كرنے والے شخص كو رشوت دے كر ايسا كيا جاتا ہے، اور بعض اوقات بغير رشوت كے ہى كام ہو جاتا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 26801 ) كے جواب كا مطالعہ ضرورى كريں.
اور كسى ايسى چيز كے حصول كے ليے مال خرچ كرنا جو اس كا حق نہ ہو رشوت كہلاتى ہے، مثلا جج اور قاضى كو رشوت دى جائے كہ وہ اس كے حق ميں باطل فيصلہ كرے، يا پھر كسى ذمہ دار شخص كو رشوت دے كہ اسے دوسروں سے آگے اور اوپر لائے، يا اسے وہ چيز دے جس كا وہ مستحق نہيں.
رشوت كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتى ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رشوت خور اور رشوت دينے والے پر اللہ تعالى كى لعنت ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2313 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مزيد معلومات كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 22452 ) اور ( 70367 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر انسان كے ليے اپنا حق وصول كرنے كے ليے رشوت كے بغير كوئى اور وسيلہ نہ ہو تو رشوت دينا جائز ہے، تو اس صورت ميں رشوت لينے والے پر حرام ہوگى، نہ كہ دينے والے پر.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور رشوت حلال نہيں ہے، رشوت يہ ہے كہ باطل فيصلہ كرانے كے ليے مال دينا، يا كوئى ذمہ دارى حاصل كرنے كے ليے، يا كسى انسان پر ظلم كرنے كے ليے مال دينا اس صورت ميں لينے اور دينے والا دونوں ہى گنہگار ہونگے.
ليكن وہ شخص جسے اس كا حق نہيں ديا جا رہا تو وہ اپنا حق حاصل كرنے كے ليے رشوت دے تا كہ اپنے آپ سے ظلم ہٹا سكے، تو يہ دينے والے كے ليے مباح اور جائز ہے، ليكن لينے والا گنہگار ہوگا " انتہى.
ماخوذ از: محلى ابن حزم ( 8 / 118 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس نے اپنے سے اس كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں تو وہ نكلتا ہے تو بغل ميں آگ دبا ركھى ہوتى ہے.
آپ سے عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ مجھ سے مانگے بغير جاتے ہى نہيں، اور اللہ تعالى ميرے ليے بخل كے وصف كا انكار كرتا ہے"
اس كى مثال يہ ہے كہ: جس نے آزاد كيا اور اس كى آزادى كو چھپا ليا تو اسے دينا، يا پھر لوگوں پر ظلم كرنے والوں كو دينا، تو يہاں دينے والوں پر جائز ہے، ليكن لينے والے كے ليے حرام ہے.
اور سفارش ميں ہديہ دينا، مثلا كوئى شخص حكمران كے پاس سفارش كرے تا كہ اسے ظلم سے بچائے، يا اس تك اس كا حق پہنچائے، يا اسے وہ ذمہ دارى دے جس كا وہ مستحق ہے، لڑائى كے ليے فوج ميں اسے استعمال كرے اور وہ اس كا مستحق ہو، يا فقراء يا فقھاء يا قراء اور عبادت گزاروں كے ليے وقف كردہ مال ميں سے دے اور وہ مستحق ہو، اور اس طرح كى سفارش جس ميں واجب كام كے فعل ميں معاونت ہوتى ہو، يا كسى حرام كام سے اجتناب ميں معاونت ہو، تو اس ميں بھى ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، ليكن دينے والے كے ليے وہ كچھ دينا جائز ہے تا كہ وہ اپنا حق حاصل كر سكے يا اپنے سےظلم روك سكے، سلف آئمہ اور اكابر سے يہى منقول ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ماخوذ از: مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" رہى وہ رشوت جس سے انسان اپنا حق حاصل كرے مثلا رشوت ديے بغير اپنا حق حاصل نہ كر سكتا ہو، تو يہ رشوت لينے والے كے ليے حرام ہو گى، نہ كہ دينے والے پر، كيونكہ دينے والے نے تو اپنا حص حاصل كرنے كے ليے مال ديا ہے، ليكن جس نے يہ رشوت لى ہے وہ گنہگار ہے كيونكہ اس نے وہ مال ليا ہے جس كا وہ مستحق نہ تھا " انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 302 ).
واللہ اعلم .