الحمد للہ.
آپ كے ليے بيوى سے مباشرت اور ہم بسترى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اگرچہ آپ كے بيان كردہ سبب اور بيمارى كى بنا پر بيوى پانى استعمال نہ بھى كر سكتى ہو، اسے بيمارى سے شفايابى حاصل ہونے تك تيمم ہى كافى ہے.
سنن ابو داود ميں ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں پانى سے بہت دور رہائش پذير تھا، اور ميرے ساتھ ميرى بيوى بھى تھى ميں جنبى ہوتا تو بغير طہارت ( يعنى غسل كے بغير تيمم كر كے ) ہى نماز ادا كر ليا كرتا تھا، تو ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو انہوں نے ميرے ليے پانى لانے كا حكم ديا تو ميں نے غسل كيا اور پھر فرمانے لگے:
" يقينا پاكيزہ مٹى طہارت ہے، چاہے تمہيں دس برس تك بھى پانى نہ ملے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 333 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بعض اہل علم نے اسے ناپسند كيا ہے كہ اگر اس كے پاس غسل كرنے كے ليے پانى نہ ہو تو وہ بيوى سے ہم بسترى كرے، ليكن صحيح يہ ہے كہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ بالا حديث كى بنا پر ايسا كرنا مكروہ نہيں ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ايسا كرنے سے منع نہيں فرمايا، بلكہ انہيں يہ بتايا كہ پانى مل جانے تك تيمم كافى ہے، جب پانى ملے تو غسل كر لے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ اسے مكروہ كہنے والے كا قول بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" اولى يہى ہے كہ بغير كسى كراہت كے ايسا كرنا صحيح ہے؛ كيونكہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كہا تھا: .... پھر ابن قدامہ نے مندرجہ بالا حديث ذكر كى ہے..... اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى لونڈى سے ہم بسترى كى ليكن ان كے پاس پانى نہ تھا اور انہوں نے اپنے ساتھيوں كو نماز بھى پڑھائى جن ميں عمار رضى اللہ تعالى عنہ شامل تھے، ليكن كسى نے بھى اس پر انكار نہيں كيا.
اسحاق بن راہويہ كہتے ہيں:
يہ ابو ذر اور عمار وغيرہ كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مسنون سنت ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 1 / 171 ).
واللہ اعلم .