الحمد للہ.
اول:
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے اس طرح كا سوال دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" اس كا حكم يہ ہے كہ ايسا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى خلاف ورزى ہے كيونكہ آپ كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے اپنى لڑكى كى شادى كر دو "
بلاشك آپ كے والد كا كفو اور برابر كے رشتہ سے شادى كرنے سے روكنا حرام عمل ہے، اور پھر شادى تعليم سے اہم ہے اور اور شادى كرنا تعليم كے منافى نہيں كيونكہ شادى اور تعليم دونوں جمع ہو سكتى ہيں.
اس ليے ميں اپنے بھائيوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ جو كوئى بھى عورتوں كا ولى ہے وہ اس كى تعليم و تدريس كى تكميل كرنا چاہتا ہے تو عورت كے ليے خاوند پر تعليم مكمل كرنے كى شرط ركھنا ممكن ہے، اور وہ نكاح كے بعد بھى تعليم مكمل ہونے تك تعليم جارى ركھےگى.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 704 - 705 ).
دوم:
آپ نے جس شخص كے رشتہ كے متعلق بيان كيا ہے كہ وہ ابھى زير تعليم ہے اگر اس كے پاس شادى كرنے كى استطاعت ہے اور وہ بہتر طريقہ سے گھريلو اخراجات پورے كر سكتا ہے تو پھر اس كے ليے تعليم شادى ميں مانع نہيں.
ليكن اگر شادى اور گھريلو اخراجات مالى استطاعت ميں تعليم آڑے آتى ہے ـ يعنى انتہائى زيادہ خرچ كے علاوہ جو بعض خاندان شرط لگاتے ہيں ـ تو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں مخاطب ہے:
اور وہ لوگ جو شادى كى استطاعت نہيں ركھتے وہ عفت و عصمت اختيار كريں حتى كہ اللہ انہيں اپنے فضل سے غنى و مالدار كر دے النور ( 33 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آيت ميں حكم ديا ہے كہ جس شخص كے ليے نكاح كرنا مشكل ہو اور وہ اسے كسى بھى طريقہ سے نہ حاصل كر سكے تو اسے عفت و عصمت اختيار كرنى چاہيے، پھر جب غالب طور پر نكاح كے موانع ميں مالى حالت كا صحيح نہ ہونا تھا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں اپنے فضل سے مالدار و غنى كرنے كا وعدہ فرمايا كہ اللہ اسے اتنا كچھ دے گا جس سے وہ شادى كر سكے گا، يا پھر اسے كوئى ايسى عورت مل جائيگى جو قليل سے مہر پر راضى ہو جائيگى يا اس سے عورتوں كى شہوت زائل ہو جائيگى "
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 12 / 242 ).
يہ جاننا ضرورى ہے كہ مہر اور نفقہ عورت كا حق ہے نہ كہ اس كے ولى كا، اس ليے عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ قليل مہر پر راضى ہو جائے اور كم اخراجات پر اكتفا كر لے، اور جس كے متعلق اسے علم ہو كہ وہ فقير اور تنگ دست ہے اس سے شادى كر لے، ليكن يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ بہت سارى عورتيں اس وقت تو راضى ہو جاتى ہيں جب كسى فقير و تنگ دست كا رشتہ آئے ليكن جب وہ اس كے ساتھ زندگى بسر كرنا شروع كرتى ہيں اور كچھ مدت بعد اس پر ناراض ہونا شروع ہو جاتى ہيں، جس كے نتيجہ اختلافات اور جھگڑے اور پھر طلاق تك نوبت جا پہنچتى ہے، اس ليے اس كو بھى مدنظر ركھنا چاہيے اور نكاح سے پہلے سوچا جائے.
سوم:
ہم خاندانوں اور عورتوں كے اولياء كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى بيٹيوں اور اپنى ذمہ دارى ميں رہنے والى عورتوں كى شادى ميں روڑے مت اٹكائيں كہ وہ لمبے چوڑے اخراجات كى قيد مت لگائيں، كہ اس طرح وہ اپنى بيٹيوں كے مستقبل كا اطمنان چاہتے ہيں، اس طرح ان لڑكيوں سے نكاح كى رغبت ركھنے والے ان سے اعراض كرنے لگيں گے جس كے نتيجہ ميں ان كى عمريں شادى سے اوپر چلى جائينگى اور وہ بغير شادى ہى زندگى بسر كرينگى، جس ميں بہت زيادہ شر و برائى ہے، اور خاص كر اس دور ميں جو پرفتن ہے، اس طرح وہ اپنى بيٹيوں كے ساتھ اور اپنے ساتھ برا سلوك كر بيٹھيں گے حالانكہ وہ ان سے احسان كرنا چاہتے تھے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى حالت كو سدھارے اور ان كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .