جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

شرعی منگنی کے عملی اقدامات

سوال

منگنی سے پہلے کے مراحل کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ یعنی کوئی نوجوان کس کو لڑکی والوں کی طرف رشتہ طلب کرنے کے لیے بھیجے؟ اور اگر لڑکی اور لڑکی والوں کی جانب سے ہامی بھر لی جائے تو اس کے بعد کیا مرحلہ ہوتا ہے؟ مثلاً: حق مہر، اور خاوند سے مطلوب دیگر کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں؟ کیا یہ مسنون ہے کہ حق مہر کی رقم مقرر کرتے ہوئے سورت الفاتحہ پڑھے؟ منگنی اور رخصتی کے لیے الگ الگ مخصوص لباس کیا یہ بھی سنت ہے؟ یا مسنون کوئی اور لباس ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

انسان جب شادی کرنا چاہے، اور کسی مخصوص لڑکی کے لیے منگنی کا پیغام بھیجنا چاہے تو خود ہی اس لڑکی کے ولی کے پاس جائے، یا کسی رشتہ دار مثلاً: بھائی یا والد کے ہمراہ جائے، یا کسی اور کو منگنی کا پیغام دینے کے لیے اپنا نمائندہ بنا لے، اس میں کوئی مخصوص حد بندی نہیں ہے، ایسے میں عرف کا لحاظ بھی رکھنا چاہیے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کسی علاقے میں خود سے منگنی کا پیغام لے کر جانا معیوب بھی ہو سکتا ہے، اس لیے ان چیزوں کا خیال رکھا جائے گا۔

شرعی طور پر منگیتر کو دیکھنا جائز ہے؛ جیسے کہ ترمذی: (1087) ، نسائی: (3235) اور ابن ماجہ: (1865) میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو منگنی کا پیغام بھیجا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنی منگیتر کو دیکھ لو؛ اس سے تمہارے درمیان محبت بڑھ جانے کا بہت زیادہ امکان ہو گا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:

اگر لڑکی اور لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے اظہار رضا مندی ہو جائے تو اس کے بعد حق مہر ، شادی کے اخراجات اور وقت وغیرہ کے متعلق اتفاق کر لیا جائے۔ یہ چیز بھی عرف اور علاقائی رسم و رواج کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ منگنی اور نکاح ایک ہی مجلس میں کر لیتے ہیں، اور کچھ لوگ منگنی کے بعد نکاح الگ سے کرتے ہیں، یا نکاح تو فوری ہو جاتا ہے لیکن رخصتی لیٹ کرتے ہیں، یہ سب طریقے جائز ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ان کی 6 سال کی عمر میں کیا تھا اور پھر رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ بخاری: (5158)

سوم:
منگنی یا نکاح کے وقت سورت فاتحہ پڑھنا مسنون نہیں ہے، مسنون یہ ہے کہ خطبۃ الحاجہ پڑھا جائے، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبۂ حاجت نکاح وغیرہ کے لیے سکھایا تھا:
 إِنَّ الحَمدَ لِلَّهِ ، نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغفِرُهُ ، وَنَعُوذُ بِهِ مِن شُرُورِ أَنفُسِنَا، مَن يَهدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَن يُضلِل فَلا هَادِيَ لَه، وَأَشهَدُ أَن لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُهُ وَرَسُولُه
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اور ( اپنے گناہوں کی ) معافی چاہتے ہیں اور اپنے نفسوں کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے وہ راہ حق سجھا دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی رہنما نہیں ہو سکتا ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا اور کوئی معبود بر حق نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً
 ترجمہ: اے لوگو! تم اپنے پروردگار کا تقوی اپناؤ، جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا، اور پھر اسی جان سے اس کی بیوی پیدا کی اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطے سے تم سوال کرتے ہو ، اور رشتے ناتے ( توڑنے ) سے بچو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے ۔ [النساء: 1]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو جیسے کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ۔ [آل عمران: 102]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات ہمیشہ صاف سیدھی کیا کرو ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست فر دے گا ، تمہاری خطائیں معاف کر دے گا ، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لی بلاشبہ وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ [الاحزاب: 70 - 71]

اس حدیث کو امام ابو داود رحمہ اللہ : (2118) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (19/146)میں ہے کہ ان سے پوچھا گیا:

کیا آدمی منگنی کا پیغام بھیجتے ہوئے سورت الفاتحہ پڑھے یا بدعت ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ: "مرد لڑکی کو منگنی کا پیغام پہنچاتے ہوئے یا نکاح کے وقت سورت الفاتحہ کی تلاوت کرے تو یہ بدعت ہے۔" ختم شد

چہارم:

منگنی یا نکاح کے وقت، یا رخصتی کے لیے کوئی مرد یا عورت کے لیے کوئی مخصوص لباس نہیں ہے، یہاں پر بھی سماجی اقدار کا خیال اس حد تک رکھا جائے گا کہ ان میں کوئی غیر شرعی عمل نہ ہو، اس بنا پر دلہا پینٹ شرٹ وغیرہ بھی پہن سکتا ہے۔

اور اگر دلہن ایسی جگہ پر ہو کہ مرد بھی اسے دیکھیں تو دلہن ساتر لباس پہنے، بالکل ایسے ہی جیسے نکاح سے پہلے یا بعد میں پہنا جاتا ہے، اور اگر وہاں صرف خواتین ہی ہوں گی تو پھر کوئی بھی لباس پہن سکتی ہے اور اس حوالے سے اسراف و فضول خرچی سے بچے اور کسی ایسے لباس سے بھی بچے جو کسی کے لیے آزمائش کا باعث بن جائے۔

شادی کے لیے مخصوص انگوٹھی [خاص نظریات کے ساتھ] پہننا مرد اور عورت کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کافروں کے ساتھ مشابہت ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21441 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے موجب اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب