الحمد للہ.
اول:
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے ليے بركت كا باعث بنائے، اور آپ كو بركت سے نوازے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع ركھے، اور آپ دونوں كو نيك و صالح اولاد نصيب كرے.
دوم:
اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كى ساس نفسياتى مشكلات سے دوچار ہے، اور ابتدا ميں آپ كے ساتھ اپنى بيٹى كا رشتہ كرنے پر راضى تھى، تو پھر اس كى بيٹى كے ليے اس كى مخالفت كرنے ميں كوئى حرج نہيں كہ جب لڑكى كا ولى اس شادى پر راضى ہے تو لڑكى آپ سے شادى كرنا قبول كر لے.
بيٹى كو چاہيے كہ وہ اپنى والدہ سے نيكى و حسن سلوك كا برتاؤ كرے، اور ماں كے ساتھ صلہ رحمى كرنے كى كوشش كرے، اور اپنى بہن بھائيوں كے ساتھ بھى اچھا برتاؤ كرے، چاہے وہ اس كے ساتھ برا سلوك ہى كرتے ہوں.
كيونكہ صلہ رحمى كى شان بہت عظيم ہے، يہ صلہ رحمى نہيں كہ جو رشتہ دار صلہ رحمى كرے اس كے ساتھ ہى صلہ رحمى كى جائے، بلكہ صلہ رحمى كرنے والا شخص تو وہ ہے جو قطع رحمى كرنے والے كے ساتھ صلہ رحمى كرتا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے.
سوم:
اور اگر والدين اور خاوند كى اطاعت ميں تعارض پيش آ جائے تو پھر خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، كيونكہ خاوند كا اپنى بيوى پر عظيم حق ہے، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہاں تك فرمايا:
" اگر ميں كسى كو حكمد ديتا كہ وہ كسى دوسرے كو سجدہ كرے تو ميں عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر ان كے حق ركھے ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2140 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1159 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام احمد اور امام حاكم رحمہما اللہ نے حصين بن محصن سے روايت كيا ہے كہ:
" ان كى ايك پھوپھى كسى كام كى بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گئى اور جب اپنے كام سے فارغ ہوگئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:
كيا تم شادى شدہ ہو ؟ تو وہ عرض كرنے لگى:
جى ہاں.
چناچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم اس كے ليے كيسى ہو ؟
تو وہ عرض كرنے لگى: ميں اس كى كسى حق ميں كوتاہى نہيں كرتى الا يہ كہ ميں عاجز ہو جاؤں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خيال كرنا تم اس كے ليے كيسى ہو كيونكہ وہ يا تمہارى جنت ہے يا پھر جہنم "
ما آلوہ كا معنى ہے كہ ميں اس كے حق كى ادائيگى ميں كوتاہى نہيں كرتى.
مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) علامہ الباني رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام احمد رحمہ اللہ نے ايك ايسى عورت كے بارہ ميں فرمايا جس كا خاوند بھى تھا اور اس عورت كى والدہ بيمار تھى تو انہوں نے كہا:
اس عورت پر اپنى ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت كرنا زيادہ واجب ہے، الا يہ كہ خاوند اسے اجازت دے دے "
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 47 ).
ليكن آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ آپ كى والدہ يعنى اپنى ساس كے ساتھ بقدر استطاعت حسن سلوك كرے، اور آپ كو بھى اس سلسلہ ميں خاوند كى ممد و معاون بننا چاہيے.
واللہ اعلم.