جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

کیا ابلیس جنوں میں سے ہے یا فرشتوں میں سے

سوال

کیا ابلیس جن ہے یا کہ فرشتہ؟ اگر وہ فرشتہ ہے تو اس کی نافرمانی نہیں کرتے؟ اور اگر وہ جن ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اطاعت اور یا نافرمانی کا اختیار ہے میں آپ سے جواب کی امید رکھتا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابلیس- اللہ تعالی اس پر لعنت فرما‏ئے- وہ جنوں میں سے ہے، اور ایک لمحہ کے لئے بھی فرشتوں ميں سے نہیں تھا کیونکہ فرشتے عزت والی مخلوق ہیں اور وہ اللہ تعالی کے اس حکم کی نافرمانی نہیں کرتے جو کہ انہیں دیا جاتا ہے۔ اور اسکے متعلق قرآن مجید میں بہت سی نصوص آئی ہیں جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ابلیس جنوں میں سے ہے اور فرشتوں میں سے نہیں۔ ذیل میں ان میں چند ایک ذکر کی جاتی ہیں۔

1 - ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اسکی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے۔" الکہف:50

2 - اللہ عزو جل نے بیان فرمایا ہے اس نے جنوں کو آگ سے پیدا کیا ہے۔

فرمان باری تعالی ہے

:اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لووالی آگ سے پیدا کیا" الحجر/ 27

ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا" الرحمن 15

اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے صحیح حدیث میں مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے۔)

اسے مسلم نے اپنی صحیح میں (2996) اور احمد نے (24668) اور بیہقی نے سنن کبری میں (18207) اور ابن حبان نے (6155) روایت کیا ہے-

تو فرشتوں کی صفت ہے کہ وہ نوری ہیں اور انہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے جن آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اور آیات میں یہ بھی آیا ہے کہ بیشک ابلیس -اللہ تعالی اس پر لعنت کرے- اسے آگ سے پیدا کیا گیا اور اسکا بیان اسکی اپنی زبان سے ہوا ہے جبکہ اللہ تعالی نے اسے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کا سبب تو اسکا – اللہ تعالی پر لعنت کرے- جواب تھا۔

"کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے" الاعراف 41 اور ص 76

تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا۔ور اللہ تعالی نے فرشتوں کا وصف بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے۔

"اے ایمان والو تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے وہ اسکی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔" التحریم6

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا۔

"بلکہ وہ سب اسکے باعزت بندے ہیں کسی بات میں اللہ تعالی پر سبقت نہیں کرتے بلکہ اسکے فرمان پر کار بند ہيں۔" الانبیاء 26-27

اور فرمان باری تعالی ہے۔

"یقینا آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اسکی تعمیل کرتے ہیں" النحل49-50

تو یہ ممکن ہی نہیں کہ فرشتے اللہ تعالی کی نافرمانی کریں کیونکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں اور انہیں اطاعت پر پیدا ہوئے ہیں۔

1. اور ابلیس کا فرشتوں میں سے نہ ہونا کیونکہ اسے اطاعت پر مجبور نہیں کیاگیا بلکہ ہماری طرح اسے اختیار ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔

"ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ نا شکرا" الدھر3

اور ایسے ہی جنوں میں بھی کافر اور مسلمان ہیں سورۃ جن کی آیات میں اس کا ذکر یوں آیا ہے۔

"اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئ ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے" جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لاچکے (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔" الجن 1-2

اور اسی سورت میں جنوں کی زبان سے یہ بات کہی گئی ہے۔

"تو ہم ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائےگا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے اور نہ ظلم وستم کا۔ ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف۔۔۔" آگے آیات تک ۔۔۔۔۔

ابن کثير رحمہ اللہ نے اس تفسیر میں کہا ہے ۔ (حسن بصری کا قول ہے۔ ابلیس آنکھ جھپکنے کا وقت جتنا بھی فرشتوں میں سے نہیں تھا اور وہ اصلی جن تھا جیسا کہ آدم علیہ السلام بشریت کی اصل ہیں۔) اسے طبری نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

ابن کثیر ج3/89

اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور یا یہ کہ وہ فرشتوں کا پر تھا۔ اور یہ کہ وہ فرشتوں میں سے سب سے زیادہ عبادت کرنے والا تھا وغیرہ اور بھی قول ہیں۔ جو کہ اکثر اسرائیل روایات ہیں اور ان میں سے بعض تو قرآن کی صریح نصوص کے خلاف ہیں۔

اور ابن کثیر نے اسے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ۔

اس بارہ میں سلف سے بہت سارے آثار مروی ہيں جو کہ غالب طور پر اسرائیلی ہيں جو کہ نقل کئے جاتے ہیں تاکہ ان میں غور وفکر کیا جائے۔ اور ان میں سے اکثر کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔ اور ان میں سے کچھ قطعی طور پر کذب ہیں کیونکہ وہ اس حق کے خلاف ہیں جو کہ ہمارے پاس ہے۔ اور قرآن مجید میں وہ کچھ ہے جو ہمیں اسکے علاوہ پہلی تمام اخبار سے کفایت کرتا ہے کیونکہ وہ خبریں تغیر وتبدل اور زیادتی ونقصان سے خالی نہيں اور اس میں بہت سی چیزیں گھڑ لی گئیں ہیں۔

اور انکے ہاں ایسے متقی اور حفاظت کرنے والے نہيں ہیں جو کہ غالیوں کی تحریف اور باطل لوگوں کے حیلوں کو اس سے بٹا سکیں جس طرح کہ اس امت (مسلمہ) کے پاس آئمہ اور علماء اور اتقیا اور نیک اور شرافت کے پیکر اور نقد کرنے والے اور وہ حفاظ جنہوں نے احادیث کو تدوین وتحریر کیا اور اس میں ضعیف اور منکر اور موضوع اور متروک اور مکذوب سے صحیح اور حسن کو بیان کیا اور کذابوں اور مجہولین اور وضاعوں کی تعریف کی اور اسکے علاوہ دوسرے (علم) رجال کو بیان کیا تو یہ سب کچھ مقام نبوی اور خاتم الرسل اور انسانوں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو صاف شفاف بنانے کے لئے کیا گیا تاکہ انکی طرف جھوٹ کی نسبت نہ کیاجا سکے اور وہ چیز نہ بیان ہوسکے جو کہ ان کی نہیں ہے۔

اللہ تعالی ان سب سے راضی ہو اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ا ھ تفسیر القرآن العظیم (3/90)

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد