جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مکان کی خریداری کیلئے جمع شدہ مال کی زکاۃ

89867

تاریخ اشاعت : 08-07-2015

مشاہدات : 4782

سوال

سوال: میں اور میرا خاوند سرکاری ملازم ہیں، اور جب سے میری ملازمت شروع ہوئی ہے اس وقت سے مکان کی خریداری کیلئے ماہانہ معمولی سی بچت کر رہی ہوں، اور پندرہ سال ہوگئے ہیں اب تک مکان کی خریداری کیلئے آدھی رقم بھی جمع نہیں ہوئی ہے، کیونکہ بڑے شہروں میں مکانات کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ میں اس کی زکاۃ کیسے ادا کروں، اور زکاۃ ادا کرنے سے رقم اور زیادہ کم ہو جائے گی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص کے پاس نصاب کے برابر مال ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکاۃ دینا واجب ہے، چاہے یہ رقم مکان کی تعمیر کیلئے  جمع کر رہا ہویا شادی ، حج یا کسی بھی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے جمع کر رہا ہو، کیونکہ جن دلائل سے زکاۃ واجب ہوتی ہے ان میں کسی بھی ضرورت کو استثنا نہیں دیا گیا۔

چاندی کا نصاب موجود ہ  اعتبار سے 595 گرام چاندی ہے، اور زکاۃ ادا کرنے کیلئے واجب مقدار 2.5٪ ہے، یعنی چالیسواں حصہ۔

اللہ تعالی نے زکاۃ  فرض ہی اس لیے کی ہے کہ مال پاک بھی ہو اور اس میں برکت  کیساتھ اضافہ بھی، ساتھ میں فقراء اور مساکین  کیساتھ غم خواری بھی، زکاۃ ایک عظیم فریضہ ہے، چنانچہ زکاۃ کی ادائیگی کیلئے  سستی کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سارا مال اللہ تعالی کا مال ہے، اور اسی نے ہمیں زکاۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ، بلکہ اس کی ادائیگی میں سستی کرنے والے کو وعید بھی سنائی  ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ )
ترجمہ: نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو۔[البقرة:43]

اسی طرح فرمایا:
( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )
ترجمہ: آپ ان کے اموال میں سے زکاۃ وصول کریں، زکاۃ کی وجہ سے ان کے مال پاک اور زیادہ ہونگے، اور ان کیلئے دعائیں بھی کریں، آپ کی دعا ان کیلئے سکون کا باعث ہے، اور اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے۔[التوبة:103]

اسی طرح فرمایا:
( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ )
ترجمہ: جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری  دے دیں۔[التوبة:34] اور یہاں آیت میں مذکور "کنز" سے مراد ہر وہ مال ہے جس میں زکاۃ واجب ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ادا نہیں کی گئی۔

مسلم : (987) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی سونے یا چاندی کا مالک  جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اسی سونا اور چاندی کی پلیٹیں بنا کر جہنم کی آگ میں  گرم کیا جائے گا، پھر اس کے پہلو، پیشانی اور کمر پر ان سے داغ لگائے جائیں گے، اور ٹھنڈا ہونے پر انہیں دوبارہ گرم کیا جائے ، جس دن یہ ہوگا وہ دن  پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، یہاں تک کہ تمام لوگوں کا فیصلہ کر دیا جائے گا، اس کے بعد اسے جنت یا جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ زکاۃ ادا کرنے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا، بلکہ اس میں برکت آتی ہے اور بڑھ جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (صدقہ کسی مال کو کم نہیں کرتا) مسلم: (2588)

مال میں برکت کا مسئلہ ایسا ہے کہ لوگ  اس سے غافل ہیں، کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ ارب  پتی  ہونے کے با جود بھی  سکون میں نہیں ہوتے، اور اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتے، جبکہ ایک اور شخص تھوڑے سے مال کا مالک ہوتا ہے لیکن اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، اسی پر دنیا میں بڑا خوش و خرم رہتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ مشاہدے میں موجود ہے۔

محترمہ! آپ مال کی زکاۃ ادا کرنے میں بالکل بھی تردد نہ کریں، اور فراخ دلی سے زکاۃ ادا کریں، آپ کا دل مطمئن ہونا چاہیے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ رضائے الہی مطمعِ نظر ہو، یہ دنیا آنے جانے والی فانی  اور معمولی سی چیز ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ)
ترجمہ: دنیا کی زندگی  تو ہے ہی دھوکے کا سامان۔[آل عمران:185]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے اموال کی زکاۃ مکمل ادا کرے، صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ، اور اسلامی ارکان پورے کرنے کیلئے، تا کہ اپنے آپ کو سزا سے بچائے اور اپنے مال کو کم ہونے سے محفوظ رکھے، کہیں مال کی برکت ختم نہ ہو جائے، اس لیے کہ زکاۃ اضافے کا باعث ہے، کمی کا باعث نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )
ترجمہ: آپ ان کے اموال میں سے زکاۃ وصول کریں، زکاۃ کی وجہ سے ان کے مال پاک اور زیادہ ہونگے، اور ان کیلئے دعائیں بھی کریں، آپ کی دعا ان کیلئے سکون کا باعث ہے، اور اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے۔[التوبة:103]

اس لیے جسے اللہ تعالی نے مال کی دولت سے نوازا ہے وہ زکاۃ ادا کرنے کیلئے باریک بینی سے مال کا حساب کتاب لگائے۔۔۔

مال کی تین قسمیں ہیں:

1- ایسا مال جس میں زکاۃ کے وجوب پر کوئی شک وشبہ  نہیں ہے، مثلاً: سونا، چاندی اور ان کا متبادل نقدی نوٹ، تو ان میں زکاۃ ہے، چاہے یہ تجارت کیلئے ہوں یا گھریلو خرچے کیلئے یا رہائشی مکان  کیلئے یا شادی وغیرہ یا کسی اور چیز کیلئے۔

2- ایسا مال جس میں زکاۃ واجب نا ہونا یقینی ہے، مثلاً: رہائشی مکان، ذاتی استعمال کی گاڑی، گھریلو سامان وغیرہ، ان دونوں قسموں کا حکم تو بالکل واضح ہے۔

3- ایسا مال جن کے بارے میں معاملہ واضح نہیں ہے، مثلاً: کسی کے ذمہ قرض ہے، تو اس بارے میں اہل علم سے رائے لے، تا کہ انسان اپنی دینی ذمہ داریوں کے بارے میں بصیرت پر رہے اور اللہ تعالی کی عبادت دلیل کے مطابق کرے۔

چنانچہ کسی مسلمان کو زکاۃ کے معاملے میں سستی ، کاہلی ، یا مساکین تک زکاۃ پہنچانے میں تاخیر زیب نہیں دیتی، کیونکہ اس بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔۔۔" انتہی
"مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین" (18/299)

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب