سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

پر فتن دور میں سنت نبوی پر کار بند رہنے کی فضیلت

89878

تاریخ اشاعت : 03-03-2016

مشاہدات : 23988

سوال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
اور اگر صحیح ہے تو پھر انسان کو سنت پر کار بند رہنے کیلئے کن کن کاموں کو بجا لانا چاہیے تا کہ سنت کو تھامنے والوں میں شمار ہو سکے؟ میں ایک عرب ملک میں رہائش پذیر ہوں اور صورت حال سب کے سامنے ہے۔۔ تو کیا صرف گناہوں سے دور رہنا اس کیلئے کافی ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سنت نبوی ہی سفینۂِ نجات اور پر امن ساحل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر کار بند رہنے  کی خوب ترغیب دلائی  ہے اور اس معاملے میں کسی بھی کوتاہی سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم  میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپناؤ نیز اسے انتہائی مضبوطی سے تھامے ہوئے دین میں شامل کیے جانے والے نت نئے امور سے بچو؛ کیونکہ ہر نیا عمل بدعت ہے، اور ہر بدعت محض گمراہی ہے) ابو داود (4607) اسے البانی نے صحیح ابو داد میں صحیح قرار دیا ہے۔

جس وقت شر و فساد کی بھر مار ہو، بدعات و فتنے پھوٹ رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں سنت پر کار بند رہنے کا اجر زیادہ عظیم ہوگا، سنت پر عمل پیرا لوگوں کا مقام و مرتبہ اعلی و ارفع ہوگا، کیونکہ یہی لوگ اندھیر نگری کے وسط میں روشنی کے علمبردار ہیں اور اسی وجہ سے انہیں اجنبیت کی زندگی بھی گزارنی پڑتی ہے، نیز یہی افراد دیگر لوگوں کی پیدا شدہ خرابیوں کی اصلاح کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(بیشک اسلام ابتدا میں اجنبی تھا، اور عنقریب دوبارہ اجنبی ہو جائے گا، اس لیے اجنبی لوگوں کیلئے خوش خبری ہے) کہا گیا: اللہ کے رسول! یہ کون ہونگے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو لوگوں کے بگڑنے پر ان کی اصلاح کرتے ہیں)
اس روایت کو ابو عمرو الدانی نے "السنن الواردة في الفتن" (1/25) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ" (1273)  میں صحیح کہا ہے، اور اس حدیث کی اصل صحیح مسلم  (145)میں ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
(یقیناً تمہارے بعد صبر کے دن آئیں گے، ان دنوں میں صبر کا مطلب انگارے ہاتھ میں پکڑنے کے مترادف ہوگا، ان دنوں میں عمل پیرا شخص کو پچاس لوگوں کے برابر عمل کا ثواب ملے گا) -کچھ راویوں نے پچاس سے زیادہ کا بھی ذکر کیا ہے- تو انہوں  کہا: "اللہ کے رسول! پچاس آدمی انہی میں سے ہونگے؟!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ثواب ملے گا)
اس روایت کو ابو داود: (4341) اور ترمذی: (3058) نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (494) میں اسے صحیح قرار دیا ، کچھ روایات میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : (یہ وہ لوگ ہونگے جو میری سنت کا احیا کرینگے اور لوگوں کو سکھائیں گے)

سنت پر عمل پیرا اور کار بندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ درج ذیل امور بجا لائے جائیں:

1- فرائض و واجبات کی ادائیگی کی جائے اور گناہوں سے کنارہ کشی۔

2- عملی اور نظریاتی بدعات سے اجتناب۔

3- اپنی وسعت و طاقت کے مطابق سنتوں اور مستحبات پر عمل۔

4- لوگوں کو بھلائی کی دعوت اور حتی الامکان اصلاح کی کوشش۔

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ نے ایک تقریر بعنوان: "دینداری کی حقیقت" صفحہ: 10 میں ہے کہ:
"سنت نبوی ہمارے پاس مدوّن شکل میں موجود ہے، اور آسانی سے تلاش کرنے پر مل بھی جاتی ہے، اب ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم سنت کو تلاش کریں اور ملنے پر عمل بھی کریں، یہاں تک کہ ہم پر یہ قول صادق آئےکہ "فلاں بندہ ملتزم ہے" اور کسی مذاق اڑانے والے ، حقارت آمیز لہجہ اپنانے والے کی پرواہ بالکل نہ کریں۔

سنتیں بسا اوقات واجبات سے تعلق رکھتی ہیں ، کبھی مستحبات  سے اور کبھی آداب و اخلاقیات سے، چنانچہ مسلمان کو اجرو ثواب کی غرض سے اپنی استطاعت کے مطابق ہر سنت پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

اس سے معلوم ہوا کہ دیندار اصل میں وہ شخص ہے جو احادیث کو سننے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اقدامات کرے، چاہے سنت کا تعلق مستحبات اور غیر ضروری امور سے ہی کیوں نہ ہو اسے عملی زندگی میں لانے کی سر توڑ کو شش کرے۔

آپکو دیندار شخص مسجد میں سب سے پہلے جاتا نظر آئے گا، اور اگر کوئی اس سے پہلے مسجد پہنچ جائے تو اس کی طبیعت پر گراں گزرے، دوسروں سے بڑھ چڑھ کر زیادہ سے زیادہ تلاوت اور ذکر کرے، مختلف قسم کی عبادات سر انجام دے، اور پوری جد و جہد اپنی عبادات کو سنت کے مطابق بنانے میں صرف کرے، اپنی عبادات میں کسی بدعت کو جگہ اس لیے نہ دے تا کہ اللہ کے ہاں اس کی عبادات قبول ہو سکیں؛ کیونکہ اگر عبادت قبول ہوگئی تو مسلمان کو رضائے الہی کا پروانہ مل جائے گا، ہم بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اعمال اللہ تعالی کے ہاں قبول ہوں، وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے" انتہی

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ "المنتقى" (2/سوال نمبر:270) میں کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند رہنا واجب ہے، اس عمل پر آپکو اگر کوئی طعنے بھی سننے پڑیں تو اس کی پرواہ نہ کریں، اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تعلق واجبات سے ہو تو پھر ان کی پابندی واجب ہو جائے گی، جبکہ مستحبات کی پابندی مستحب ہی رہے گی، اور اگر معاملہ تشدد تک پہنچ جائے تو آپ تشدد سے گریز کریں، اس لیے آپ میانہ روی اور اعتدال پسندی کی روش اختیار کرتے ہوئے غلو اور تشدد کے بغیر سنتوں پر عمل پیرا رہیں، اس کیلئے سستی اور زیادتی کا شکار مت ہوں، آپ اسی ڈگر پر گامزن رہیں۔

بہر حال آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور آپ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل پیرا رہیں" انتہی

دوم:

محترم سائل نے جس حدیث کے بارے میں استفسار کیا ہے کہ (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے) تو یہ ضعیف حدیث ہے، صحیح نہیں ہے، اس بارے میں علمائے کرام کی درج ذیل گفتگو ملاحظہ کریں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے شہید کا ثواب ہے)

اس روایت کو طبرانی نے "الأوسط" (2/31) اور طبرانی س ہی ابو نعیم نے "حلیۃ الأولياء" (8/200) میں بیان کیا ہے۔

اس حدیث کی سند میں دو علتیں ہیں:

1- اس حدیث کو عبد المجید بن عبد العزیز بن ابو رواد تنہا بیان کر رہا ہے، اور ایسا راوی تنہا بیان کرے تو قابل قبول نہیں ہوتا۔

2- اس روایت کی سند میں محمد بن صالح عذری مجہول ہے، ہیثمی  رحمہ اللہ "مجمع الزوائد" (1/172) میں لکھتے ہیں کہ: "مجھے اس کے حالات زندگی کسی کے پاس نہیں ملے" اسی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ ضعیفہ (327) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے)
اس روایت کو ابن عدی نے "الکامل" (2/327) میں بیان کیا ہے، اس کی سند سخت ضعیف ہے، اس میں حسن بن قتیبہ  "متروک الحدیث" ہے، اس کے حالات زندگی "لسان المیزان" (2/246)  میں دیکھیں، نیز البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ (326) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب