الحمد للہ.
جيسا آپ نے بيان كيا ہے كہ عقال پہننا مباحات ميں شامل ہوتا ہے، اور افضل اور بہتر يہى ہے كہ انسان اپنے علاقے اور ملك كى عادات كے مطابق عمل كرے، اور لباس يا شكل وغيرہ ميں امتياز اور عليحدگى اختيار نہ كرے.
اگر تو عادت ہو كہ اہل علم اور قاضى يا خطيب اور امام وغيرہ اپنے سر پر عقال نہيں ركھتے، اور آپ بھى ان ميں شامل ہوتے ہيں تو پھر يہى كہا جائيگا كہ عقال نہ پہننا افضل ہے، اور جو كوئى پہنے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
عقال پہننے كا حكم كيا ہے، حالانكہ ميں ديكھتا ہوں كہ امام اور موذن عقال نہيں پہنتے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" عقال پہننے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ ملبوسات ميں افضل حلت ہے، ليكن اگر كسى چيز كى حرمت پر شرعى دليل ثابت ہو جائے تو وہ حرام ہو گى، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے بھى ايسے لوگوں پرانكار كيا ہے جو بغير كسى شرعى دليل كے كھانے پينے يا پہننے والى چيز كو حرام قرار ديتے ہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
آپ فرمائيے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جنہيں اللہ نے اپنے بندوں كے ليے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ الاعراف ( 32 ).
ليكن جب كوئى شرعى دليل اس لباس كى حرمت پر دلالت كرے، چاہے وہ كسى چيز كو بعينہ حرام قرار دے مثلا مردوں كے ليے ريشم، ايسا لباس جس ميں مرد يا عورت كى تصوير ہو، يا پھر وہ بطور جنس حرام كرتى ہو جيسا كہ اگر وہ لباس كفار كے لباس ميں شامل ہوتا ہو، اور ان كے ليے مخصوص ہو تو يہ حرام ہو گا، وگرنہ اصل ميں حلت ہى ہے " انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 246 ).
واللہ اعلم .