جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

قیامت صرف بد لوگوں پر قائم ہو گی۔

سوال

میں نے سنا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے کوئی بھی مومن نہیں ہو گا، اور اللہ کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہو گا۔ تو کیا یہ صورت حال قیامت سے فوری پہلے کی ہو گی یا مسیح دجال کے ظہور پذیر ہونے کے وقت کی ہو گی؟ مجھے اس حوالے سے پریشانی ہو رہی ہے کیونکہ مجھے علم ہے کہ آخری زمانے میں اہل ایمان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی اور ایک بار پھر اللہ تعالی کی شریعت پر عمل کیا جانے لگے گا، تو یہ کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحیح ثابت شدہ احادیث میں یہ بات واضح ہے کہ قیامت صرف بد لوگوں پر ہی قائم ہو گی حتی کہ زمین پر اللہ تعالی کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ لیکن یہ معاملہ دنیا کی انتہائی آخری عمر میں ہو گا جو کہ مسیح دجال کے ظہور اور پھر سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد ہو گا، اس سے پہلے اسلام اور مسلمانوں غلبہ بھی ہو گا اور زمین پر شریعت کا نفاذ بھی ہو چکا ہو گا۔

جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: عنقریب تمہارے اندر ابن مریم عادل حکمران بن کر نازل ہوں گے ، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، اور جزیے کا خاتمہ فرما دیں گے، مال کی فراوانی ہو گی کہ کوئی بھی اسے لینے کے لیے تیار نہ ہو گا)اس حدیث کو امام بخاری: (2222) اور مسلم : (155) نے روایت کیا ہے۔
نیز صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ: (اللہ کی قسم! ابن مریم عادل حکمران بن کر ضرور نازل ہوں گے ، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، اور جزیے کا خاتمہ فرما دیں گے، جوان اونٹنیاں کھلی چھوڑ دی جائیں گی انہیں کوئی بھی اہمیت نہیں دے گا، باہمی کینہ، بغض اور حسد ختم ہو جائے گا۔ انہیں دولت وصول کرنے کے لیے بلایا جائے گا لیکن کوئی بھی دولت وصول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا۔)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ: لوگ جوان اونٹنی رکھنے کے لیے بھی تیار نہ ہوں گے؛ کیونکہ مال کی فراوانی ہو گی، خواہشات کم ہوں گی، اور کسی چیز کی ضرورت نہ ہو گی ؛کیونکہ انہیں قیامت کے قریب آنے کا یقین ہو گا۔ اس حدیث میں جوان اونٹنی کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عرب کے ہاں یہ سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالی کے فرمان جیسی مشابہت پائی جاتی ہے کہ: وَإِذَا الْعِشَار عُطِّلَتْ [ترجمہ: اور جب دس ماہ حاملہ اونٹنیاں کھلی چھوڑ دی جائیں گے۔] حدیث کے عربی الفاظ: لَا يُسْعَى عَلَيْهَا کا مطلب یہ ہے کہ: ان کا کوئی بھی خیال نہیں رکھے گا ان کے مالکان انہیں اہمیت نہیں دیں گے۔" ختم شد

اس حدیث میں مذکور مرحلہ اسلام اور مسلمانوں کے عروج کا ہے، اس کے بعد وہ مرحلہ شروع ہو گا جب اہل ایمان کی تعداد کم ہو جائے گی، پھر اللہ تعالی ایک ایسی ہوا بھیجے گا جو باقی ماندہ مومنین کی روحیں قبض کر لے گی، اور دنیا میں صرف شریر لوگ ہی بچ جائیں گے اور پھر انہی پر قیامت قائم ہو گی۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (148) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک زمین پر اللہ ، اللہ کہنے والے ہوں گے۔)

ایسے ہی مسند احمد: (3844) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً وہ لوگ سب سے بد ترین ہوں گے جن پر قیامت قائم ہو گی اور وہ زندہ ہوں گے، اور وہ لوگ بھی بد ترین ہیں جو قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔) اس حدیث کو شعیب ارناؤوط نے مسند احمد کی تحقیق میں حسن قرار دیا ہے۔

ان مراحل کی تفصیل صحیح مسلم: (2940) میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری امت میں دجال نمودار ہو گا اور چالیس تک رہے گا تو اللہ تعالی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دیں گے۔ وہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مشابہت رکھتے ہوں گے۔ سیدنا عیسی اسے ڈھونڈیں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے، پھر لوگ سات سال تک اس حالت میں رہیں گے۔ کہ کوئی سے دو آدمیوں کے درمیان بھی دشمنی تک نہ ہو گی، پھر اللہ تعالی شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چلائے گا تو روئے زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھلائی یا ایمان ہو گا، مگر وہ ہوا اس کی روح قبض کرے گی یہاں تک کہا اگر تم میں سے کوئی شخص پہاڑ کے اندر گھس جائے گا تو وہاں بھی وہ (ہوا)داخل ہو جائے گی اور اس کی روح قبض کر لے گی۔) آپ نے مزید فرمایا: (یہاں تک کہ روئے زمین پر صرف پرندوں جیسے ہلکے پن اور درندوں جیسی عقلیں رکھنے والے بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے۔ نہ اچھائی کو اچھا سمجھیں گے نہ برائی کو برا جانیں گے۔ شیطان کوئی شکل اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا :"کیا تم میری بات پر عمل نہیں کرو گے؟ وہ کہیں گے: تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔؟وہ انہیں بت پوجنے کا حکم دے گا وہ اسی حالت میں رہیں گے ان کا رزق اترتا ہو گا ان کی معیشت بہت اچھی ہو گی پھر صور پھونکا جائے گا ۔)

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث کے عربی الفاظ: { فِي كَبِد جَبَل} یعنی پہاڑ کے اندر اور درمیان میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : { فَيَبْقَى شِرَار النَّاس فِي خِفَّة الطَّيْر وَأَحْلَام السِّبَاع } کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں: وہ لوگ برائی میں ملوث ہونے اور اپنی شہوت پوری کرنے میں پرندوں کے اڑنے کی طرح تیز ہوں گے، جبکہ دشمنی اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے میں خونخوار درندوں کی طرح ہوں گے۔ صحیح مسلم: (2937) میں سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صبح دجال کا تذکرہ فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیسی بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کا ذکر کیا کہ وہ : دمشق کے مشرقی سفید مینار کے پاس دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، آپ مسیح دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے ۔۔۔ پھر یاجوج ماجوج کے نکلنے اور ان کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا، پھر زمین کو کہا جائے گا: اپنے اناج اگاؤ، اور اپنی برکت واپس لاؤ ۔۔۔ ابھی وہ اسی میں حالت میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالی ان پر پاکیزہ ہوا چلا دے گا جو ان کی بغلوں کے نیچے سے انہیں پکڑے گی اور ہر مومن اور مسلمان کی روح قبض کر لے گی ، پھر صرف بد ترین لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو گدھو ں کی طرح جفتی کریں گے، تو انہی پر قیامت قائم ہو گی"
گدھوں کی طرح جفتی کریں گے، یعنی مرد عورتوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہی جسمانی تعلق قائم کریں گے جیسے گدھے کرتے ہیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنی اطاعت اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب