ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

دوسرى شادى كرنے كے ليے غير كنوارے كا جعلى سرٹفكيٹ تيار كرنا

91899

تاریخ اشاعت : 05-08-2008

مشاہدات : 6460

سوال

ميرى ايك قريبى رشتہ دار لڑكى نے ايك شادى شدہ شخص سے شادى كى ہے، ليكن مرد كے گھر والوں نے اس شادى كو اختيار نہيں كيا، كيونكہ اس آدمى نے پہلى شادى اپنے والد كى رغبت سے كى تھى، اس شخص نے ميرى رشتہ دار لڑكى سے شرعى طريقہ كے مطابق شادى كى ہے ليكن مسئلہ يہ ہے كہ اس نے اپنے كنوارہ ہونے كا سرٹفكيٹ جعلى تيار كرايا ہے اس ليے كہ:
1 - ہمارے ملك ميں نئے قانون كے مطابق دوسرى شادى كرنے كے ليے پہلى بيوى كى اجازت لينا ضرورى ہے.
2 - وہ اپنى پہلى بيوى فى الحال طلاق نہيں دينا چاہتا، اور اس كے پاس طلاق كے اخراجات بھى نہيں ہيں.
يہ علم ميں رہے كہ پہلى بيوى سے اس كا ايك بيٹا بھى ہے، اب وہ اپنى آمدنى بہتر بنانے كے ليے غير ملك چلا گيا ہے، تا كہ اس كى مشكلات كا كوئى حل نكل سكے اس كے كہنے مطابق كہ وہ اپنى پہلى بيوى كے ساتھ نہيں رہ سكتا، اور اگر اس كى بيوى بغير طلاق كے ہى اپنے سسرال ميں رہنا چاہتى ہے تو اسے كوئى اعتراض نہيں، كيونكہ اس كے خاندان كے حالات ہى ايسے ہيں، ليكن وہ اس سے معاشرت نہيں كريگا، اس كا كہنا ہے وہ خود اسے اختيار كرے كيونكہ وہ اسے نكالنا نہيں چاہتا.
يہ ياد رہے كہ مرد كے گھر والوں كو دوسرى شادى كا علم نہيں، تا كہ مشكلات ميں مزيد اضافہ نہ ہو. سوال يہ ہے كہ:
كيا كنوارہ ہونے كى جعلى سرٹفكيٹ پيش كر كے دوسرى شادى كرنا صحيح ہے ؟
كيا ہم لڑكى والے اسے اس جعلى سرٹفكيٹ دوسرے شادى كرنے پر تيار اور ابھارنے كى بنا پر گنہگار ہيں ؟
يہ بھى علم ميں ركھيں كہ ہمارى لڑكى ـ افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے ـ كے پہلى شادى سے قبل اس آدمى كے ساتھ غير شرعى تعلقات قائم تھے، تو ہم نے اس حرام تعلقات كے خوف سے اسے شادى كرنے كا كہا چاہے وہ اس طريقہ سے شادى كر لے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہميں ان ملكوں پر بہت افسوس ہوتا جو اسلام كے خلاف جنگ كرتى اور مسلمانوں پر ان كے دينى شعار اور اللہ عزوجل كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے ميں تنگى كرتے ہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ يہ ملك جب اپنے دروزاے فتنہ و فساد اور اخلاق فاضلہ كو ختم كرنے كے اسباب كے ليے كھولتے ہيں تو اسى دوران ہم ديكھتے ہيں كہ وہ اللہ تعالى كى جانب سے مباح كردہ ايك سے زائد شادياں كرنے كى رغبت ركھنے والے شخص پر تنگى كرتے ہيں.

بلكہ ان ممالك ميں سے بعض تو ايك سے زائد شادى كرنے كو بالكل منع كرتے ہيں، اور بعض ممالك نے پہلى بيوى كى رضامندى كى شرط لگا ركھى ہے! يہ بتائيں كہ وہ كونسى بيوى ہے جس كے سامنے دوسرى شادى كرنا پيش كيا جائے تو وہ قبول كريگى ؟!

اور بعض ممالك نے معين آمدنى كى شرط لگا ركھى ہے جس سے بہت سارے لوگ عاجز ہيں، ليكن وہ دوسرى شادى كرنے پر قادر ہيں.

ان ممالك كے حكمرانوں كو اللہ تعالى سے ڈرنا چاہيے اور اللہ كىشريعت كى مخالفت سے اجتناب كرنا چاہيے، اور كسى بھى عالم دين اور جج اور قاضى كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس طرح كے قوانين قبول كرنا جائز نہيں.

اور ايك سے زائد شادى كرنے والوں ميں جو ظلم و ستم پايا جاتا ہے كہ وہ اپنى بيويوں پر ظلم كرتے ہيں، اگر يہى معيار ہے تو پھر يہ چيز تو ايك بيوى ركھنے والوں ميں اس سے بھى زيادہ موجود ہے، تو كيا يہ چيز پہلى شادى كرنے كو بھى ختم كرنے كا باعث بن جائيگا؟!

يہ بات عجيب بات ہے كہ يہ قوانين حرام كو مباح اور جائز قرار ديتے ہيں، اور اسے جرم اور برائى شمار نہيں كرتے ليكن حلال كو حرام كر كے اسے جرم اور برائى قرار ديتے ہيں.

جس شخص كے متعلق آپ نے سوال كيا ہے كہ شادى سے قبل اس عورت سے غير شرعى تعلقات تھے، عرض يہ ہے كہ اگر يہ تعلقات ان قوانين تك پہنچ جائيں تو وہ اسے مباح قرار ديگا كہ ان دونوں كى رضامندى سے يہ تعلقات قائم تھے اور وہ عورت بالغ اور ميچور تھى!!

ليكن اس كے برعكس اگر وہ غير شرعى تعلقات كى بجائے اسے اپنى بيوى بناتا ہے تو يہى قانون اسے حرام اور برائى گردانتا ہے، اور وہ كہتے ہيں: آپ اپنى معشوق تو ركھ سكتے ہيں، ليكن اسے بيوى نہيں بنا سكتے! كتنا ہى برا قانون ہے جو انہوں نے بنا ركھا ہے!

چنانچہ اس طرح كے قوانين جو اللہ كى شريعت كے مخالف اور باطل ہوں مسلمان شخص كے ليے اس سے بھاگنا اور اس كے متعلق حيلہ سازى كرنے ميں كوئى حرج نہيں اس ليے جو كوئى بھى ايك سے زائد شادى كرنا چاہتا ہو اور وہ كنوارہ پن كا جعلى سرٹفكيٹ بنوا لے تا كہ عقد نكاح مكمل ہو سكے تو اس پر كوئى حرج اور گناہ نہيں؛ كيونكہ وہ قانون جس نے اسے ايك سے زائد شادى كرنے سے منع كيا ہے وہ قانون باطل اور ناجائز ہے، مسلمان شخص كے ليے اس قانون كو ماننا اور اس كے تابع ہونا جائز نہيں.

ليكن خاوند كو چاہيے كہ وہ اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے اثرات پر غور كر لے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں اور ضرر پيدا ہوں.

اور دوسرى بيوى كے خاندان والوں كے ليے اس ميں كوئى حرج نہيں كہ انہوں نے اس سرٹفكيٹ كے جعلى ہونے كا علم ہونے كے باوجود اس كو اپنى بيٹى دے دى، بلا شك و شبہ يہ ان كے ليے بھى اور ان كى بيٹى كے ليے بھى غير شرعى تعلقات قائم كرنے سے بہتر اور اچھا ہے.

دوم:

والد كے شايان شان نہيں كہ وہ اپنے بيٹے كو كسى ايسى لڑكى سے شادى پر مجبور كرے جسے وہ چاہتا ہى نہيں، اور اس حال ميں بيٹے كو بھى اپنے والد كى اطاعت نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ اس طريقہ سے شادى ميں نہ تو محبت و الفت پائى جائيگى اور نہ ہى خاوند اور بيوى كے درميان رحمدلى و سكون پيدا ہو گا.

بلكہ ہو سكتا ہے خاوند اپنى بيوى كو ناپسند كرنے كى وجہ سے بيوى پر ظلم وستم كرنے لگے، اور اس طرح كى شادياں بہت كى كم كامياب ہوتى ہيں، بلكہ اكثر ناكام ہو جاتى ہيں، اور خاوند و بيوى كو اس كے پيچھے مشكلات و ناكامى اور اولاد ميں بگاڑ كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوتا.

اور اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ عورت كا اس ميں كوئى قصور اور گناہ نہيں كہ اس كى سزا ميں اس سے برا سلوك كيا جائے كہ يہ شادى اس كى پسند كى نہ تھى.

اور اگر وہ اپنے والد كو راضى كرنا چاہتا ہے تو اسے چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ حسن سلوك كرے اور اس كے حقوق ادا كرے، اور اسے راضى و خوشى اپنى بيوى بنائے اور اس كے مكمل حقوق ادا كرتے ہوئے اس سے حسن معاشرت كرے، اگر ايسا نہيں ہو سكتا اور وہ اسے اچھے طريقہ سے نہيں ركھ سكتا تو اسے اچھے اور بہتر طريقہ اسے طلاق دے كر اور بغير كسى كمى كے اس كا حق ادا كر كے اسے چھوڑ دے.

اور اگر عورت اس كے ذمہ ميں ہى رہنا چاہتى ہو اور بغير معاشر كے ہى اس كے بچے كو پالے اور پرورش كرے تو اس كے ليے اسے قبول كرنا جائز ہے، اور اسى طرح اگر يہ چيز اس عورت كے سامنے ركھى جائے اور وہ اس كى موافقت كر لے تو بھى جائز ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متعلق فرماتى ہيں:

اور اگر كسى عورت كو اپنے شوہر كى بددماغى اور بےپرواہى كا خوف ہو تو دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں النساء ( 128 ).

يہ اس عورت كے متعلق نازل ہوئى جو مرد كى صحبت ميں ہو اور لمبى مدت ہو جائے اور وہ مرد اسے طلاق دينا چاہے تو وہ عورت اپنے خاوند كو كہتى ہے:

مجھے طلاق مت دو بلكہ اپنے ہى ذمہ ميں ركھو اور تم مجھ سے حلال ہو ( يعنى اپنى بارى كو ختم كر دے ) تو يہ آيت نازل ہوئى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2318 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3020 ).

اور بخارى كى روايت ميں ہے:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتے ہيں:

وہ شخص جو اپنى بيوى سے ايسا كچھ ديكھے جو اسے بڑھاپے وغيرہ كى بنا پر اچھا نہ لگے اور وہ اسے اپنے سے جدا كرنا چاہے تو وہ خاوند كو كہے تم مجھے اپنے پاس ہى ركھو، اور ميرے ليے جو چاہو تقسيم كرو، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں اگر وہ دونوں راضى ہو جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2584 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب مرد اپنى بيوى سے حاجت پورى كر لے اور اس كا نفس اسے ناپسند كرنے لگے يا پھر اس كى حقوق كى ادائيگى سے عاجز ہو جائے تو اسے طلاق دينے كا حق ہے اور اسے اختيار دينے كا بھى حق ہے، اگر چاہے تو وہ عورت اس كے پاس رہے اور تقسيم اور ہم بسترى اور نفقہ ميں اسے كوئى حق حاصل نہ ہو، يا اس ميں سے كچھ كا يعنى جس پر وہ دونوں رضامند ہو جائيں، اگر وہ اس پر راضى ہو جائے تو لازم ہو گا، اور رضامندى كے بعد اسے مطالبہ كا كوئى حق حاصل نہيں ہوگا، سنت نبويہ كا موجب اور تقاضا يہى ہے، اور يہى صحيح ہے اس كے علاوہ كچھ اور جائز نہيں.

اور جو يہ كہتا ہے:

اس كے حقوق كى تجديد ہو سكتى ہے، اور جب چاہے بيوى اس سے رجوع كر سكتى ہے، يہ قول فاسد ہے صحيح نہيں؛ كيونكہ يہ معاوضہ كى جگہ ہے، اور اللہ عزوجل نے اسے صلح كا نام ديا ہے، تو يہ اسى طرح لازم ہے جس طرح وہ حقوق اور اموال لازم ہوتے ہيں جن پر صلح كى جائے.

اور اگر وہ اس كے بعد وہ اپنے حقوق كے مطالبہ كر سكتى ہو تو پھر اس ميں تاخير ضرر لازم آتا ہے جو دونوں حالتوں ميں زيادہ كامل ہو، نہ كہ يہ صلح ہو گى، بلكہ يہ تو دشمنى كے قريبى اسباب ميں سے ہو گا، اور شريعت اسلاميہ اس سے برى ہے.

اور پھر منافق كى علامت ميں يہ شامل ہے كہ جب وعدہ كرتا ہے تو اس كى خلاف ورزى اور جب معاہدہ كرتا ہے تو اسے توڑتا ديتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فيصلہ اسے رد كرتا ہے "

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 152 - 153 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى بھى اس مسئلہ ميں اسى طرح كى كلام موجود ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ( 32 / 270 ).

سوم:

آپ نے اپنے سوال ميں يہ بيان كيا ہے كہ اس لڑكى كے شادى سے قبل اس شخص كے ساتھ غير شرعى تعلقات تھے اگر تو اس كا معنى زنا ہے تو پھر آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ جب تك زنا كرنے والے دونوں توبہ نہيں كرتے ان كى آپس ميں شادى كرنا جائز نہيں.

اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 11195 ) اور ( 14381 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب