الحمد للہ.
اول:
آپ كا يہ كہنا كہ: آپ كا اور آپ كى منگيتر كا خاندان دو مختلف گروہوں سے تعلق ركھتا ہے، اس كى حقيقت كا ہميں علم نہيں؛ بہر حال اگر تو گروہ سے آپ كى مراد قبيلہ اور خاندان اور نسب كى اصل و برادرى ہے تو يہ معاملہ آسان ہے اور ہم سے اس پر تنبيہ كا محتاج نہيں، اس موضوع كے بارہ ميں آپ كو سوال نمبر ( 13780 ) كے جواب ميں معلومات مل جائينگى آپ اس كا مطالعہ كريں.
ليكن اگر گروہ سے آپ كى مراد يہ ہے كہ منگيتر كا خاندان ايسے گروہ سے تعلق ركھتا ہے جس كا عقيدہ آپ كے عقيدہ كے مخالف ہے ـ ہمارا آپ كے بارہ ميں خيال يہى ہے كہ آپ اہل سنت و الجماعت سے تعلق ركھتے ہيں ـ تو يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ اسلام كى طرف منسوب گروہ ايسے بھى ہيں جو اسلام سے خارج ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو صراط مستقيم سے گمراہ ہيں اور اہل سنت و الجماعت سے منحرف ہيں، اسلام سے خارج گروہ مثلا قاديانى، اسماعيلى، حلولى اور رافضى و شيعہ اور بريلوى ہيں، اور دوسرے مثلا اشاعرہ ماتريديہ اور مرجئۃ ہيں.
اس ليے اگر تو آپ كى منگيتر كا عقيدہ ان فرقے اور گروہ جيسا ہے جو دين اسلام سے خارج ہيں تو آپ كے ليے اس سے شادى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ دين سے مرتد ہونے كے باعث وہ مشرك عورتوں كے حكم ميں ہے.
اور اگر وہ كسى گمراہ فرقے جيسا عقيدہ ركھتى ہے تو آپ كے ليے اس سے شادى كرنا جائز ہے، ليكن اس سے متنبہ رہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے شادى كرنے كى وصيت كى ہے؛ تا كہ خاوند اس كے ساتھ عقيدہ سے پرامن رہے، اور وہ اس عورت سے اپنے گھر والوں اور بچوں كے بارہ ميں بھى امن ميں رہے.
عمران بن حطان رحمہ اللہ جو كہ اہل سنت سے تعلق ركھتے ہيں نے ايك عورت سے شادى كى جو خوارج سے تعلق ركھتى تھى تا كہ اس عورت كى اصلاح ہو سكتے ليكن معاملہ اس كے برعكس ہوا اور يہ شخص خارجيوں كا سردار اور امام بن گيا.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 4 / 214 ).
اس ليے ہمارے سلف رحمہ اللہ نے بہت سختى سے بدعتيوں اور صاحب اہواء كے ساتھ بيٹھنے سے منع كيا ہے، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما فرماتے ہيں كہ:
اہل اھواء كے ساتھ مت بيٹھو كيونكہ ان كے ساتھ بيٹھنا دل كو بيمار كر ديتا ہے "
ديكھيں: تفسير الطبرى ( 4 / 328 ).
اور ابو الجوزاء كہتے ہيں:
" مجھے خنزير كے ساتھ بيٹھنا اہل اھواء كے ساتھ بيٹھنے سے زيادہ پسند ہے "
ديكھيں: الابانۃ تاليف ابن بطۃ ( 2 / 438 ).
اور ابو قلابۃ كہتے ہيں:
" اہل اھواء كے ساتھ مت بيٹھو اور نہ ہى ان سے بات چيت كرو؛ كيونكہ مجھے خدشہ ہے كہ وہ تمہيں اپنى گمراہى ميں لےڈوبيں گے، يا پھر تم پر وہ كچھ ڈال ديں گے جسے تم جانتے ہى نہيں "
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 4 / 372 ).
بہر حال اس ميں كوئى شك نہيں كہ آپ كا اہل سنت كى عورت سے شادى كرنا آپ اور آپ كے خاندان والوں اور آپ كى اولاد كے ليے بہتر ہے، مگر يہ كہ يہ عورت ايسى ہو كہ وہ بدعتيوں كے مابين رہتى ہو، بلكہ اس كو اس طرح كے ماحول سے نكالنے پر آپ كو اجر ہوگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 8537 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
اور آپ كے ليے شادى كى ايسى تقريب منعقد كرنى جائز نہيں ہے جس ميں حرام امور سرانجام نہ ديے گئے ہوں، مثلا رقص اور گانا بجانا، اور مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو، چاہے ان كى جانب سے اس كى شرط بھى لگائى ہو تو ان كى شرط باطل ہو جائيگى، اور آپ كے ليے اسے پورا كرنا لازم نہيں.
سوال نمبر ( 7577 ) كے جواب ميں ہم نے اس طرح كے موقف اور معاملہ كے علاج كے متعلق بات چيت كى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور سوال نمبر ( 9290 ) كے جواب ميں آپ كو مباح اشياء كا استعمال اور خوشى كے موقع پر كيا كچھ سنا جا سكتا ہے كے متعلق بيان كيا گيا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر وہ شادى كى تقريب پر اصرار كريں ـ بشرطيكہ اس ميں گناہ كے كام نہ ہوں ـ تو آپ كے ليے دو مختصر سى تقريب كرنى جائز ہيں، ـ جيسا كہ اس طرح كى حالت ميں لوگ كرتے ہيں ـ ايك ان كے پاس اور دوسرى اپنے خاندان والوں كے پاس.
سوم:
رہى گھر خريدنے كى شرط تو ان كے ليے يہ شرط جائز نہيں، الا يہ كہ يہ گھر ان كى بيٹى كا ہو، اور وہ چاہيں كہ آپ وہ گھر اس كى ملكيت ميں ديں، اور بيوى كے ليے اس ميں كوئى مانع نہيں كہ وہ خاوند پر شرط ركھے كہ وہ اسے اس كے علاقے ميں ركھے يا كسى اور جگہ، يہ نكاح كے بعد اسے حق ہے كہ وہ اسے باقى ركھے يا پھر اسے ساقط كر دے.
نكاح كى شرطيں بيوى كے گھر والوں كا حق نہيں، الا يہ كہ اگر وہ اپنى بيٹى كى جانب سے بطور وكيل ہوں، يا پھر يہ شرائط بيٹى كى مصلحت كے ليے ہوں، ليكن اگر ولى كوئى ايسى شرط ركھے جس كا اس كى بيٹى سے كوئى تعلق نہيں تو يہ شرط جائز نہيں ہے.
بلكہ بيوى شرط لگا سكتى ہے، يا پھر اس كى جانب سے بطور وكيل ولى، اور ولى كو اص ميں موافق اور عدم موافقت كا حق حاصل ہے، حتى كہ مہر عورت كا حق ہے اور مہر كى تحديد كريگى يا پھر وہ اپنے ولى كو مہر محدد كرنے ميں وكيل بنائيگى.
اور بيوى يا اس كے ولى كے ليے ممكن ہے كہ وہ آپ كے سامنے " اپنے علاقے ميں رہائش كى شرط ركھيں، اور آپ كو يہ شرط پورى كرنا ہوگى، ليكن انہيں يہ حق نہيں كہ يہ گھر ملكيت ہو اور كرايہ پر نہ ہو.
اور جب آپ ان سے يہ شرط بالكل ختم كرنا چاہتے ہوں يا پھر كم از كم يہ كہ گھر كرايہ پر ہو ملكيت نہيں تو آپ كو چاہيے كہ آپ ان كے ساتھ بات چيت ميں نرم رويہ اختيار كريں اور اس كے ليے اہل علم اور حكمت كے ساتھ معاونت حاصل كريں تا كہ وہ آپ كى منگيتر كے گھر والوں سے بات چيت كريں اور اللہ سے دعا كريں كہ آپ كے ليے اس ميں آسانى پيدا كرے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 20757 ) اور ( 10343 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
ہم آپ كو استخارہ كرنے كى وصيت كرتے ہيں؛ ہو سكتا ہے آپ يہ خيال كرتے ہوں كہ يہ عورت آپ اور آپ كى اولاد كے ليے بہتر ہے، ليكن معاملہ ايسا نہ ہو، اور بندہ تو جاہل ہے اسے اپنے پروردگار سے مدد مانگنى چاہيے جو اپنے بندے كے ليے خير كا علم ركھتا ہے، اور اس پر قدرت ركھتا ہے، اور بندہ تو عاجز و مسكين ہے اسے اپنے قادر رب سے مدد مانگنى چاہيے كہ وہ اسباب ميں آسانى پيدا كرے يا معطل كرے، اللہ تعالى ہى معاملہ كو اس سے پھيرنے پر قادر ہے، اور وہى اس كو اس كام سے دور كرنے پر قادر ہے، نماز استخارہ كى مزيد تفصيل آپ سوال نمبر ( 2217 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہم نے آپ كے مسائل كا پورا جواب دے ديا ہے، يہاں ہم ايك تنبيہ كرا ضرورى سمجھتے ہيں:
بيوى كا انتخاب كرتے وقت دين والى عورت كو اختيار كريں، اور وہ عفت و عصمت كى مالك ہو اور بااخلاق ہو.
اللہ تعالى سے ہمارى دعاء ہے كہ اللہ تعالى آپ كے ليے نيك و صالح اور فرمانبردار بيوى كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے، جو اللہ كى اطاعت ميں آپكى مدد و نصرت فرمائے، اور آپ كو حرام سے محفوظ ركھے.
واللہ اعلم .