جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا بے ہوشی سے روزہ باطل ہوجاتا ہے

سوال

ایک روزہ دار شخص بے ہوش ہوجائے توکیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام احمد اورامام شافعی کا اس میں مسلک ہے کہ روزہ دار کے بے ہوش ہونے کی دو حالتیں ہیں :

وہ سارا دن ہی بے ہوش رہے ، یعنی وہ فجر سے قبل بے ہوش ہوا اورغروب شمس سے قبل اسے ہوش نہيں آئي ، تواس شخص کا روزہ صحیح نہیں ، بلکہ اس شخص پر اس دن کی قضاءلازم ہے ۔

اس کے روزہ کے صحیح نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ روزہ تو نیت کے ساتھ روزہ توڑنے والی اشیاء سے پرہیزکرنے کا نام ہے ۔

کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( وہ کھانا پینا اوراپنی شھوت صرف میرے لیے ترک کرتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1151 ) ۔

تواس حدیث میں اللہ تعالی نے ترک کی اضافت صائم یعنی روزے دار کی طرف کی ہے ، اوربے ہوش شخص کی طرف تو ترک کرنے کی اضافت نہیں ہوسکتی ۔

اوراس کے روزہ کو بعد میں بطور قضاء رکھنے کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

اورجوکوئي مریض ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 185 ) ۔

دوسری حالت :

یہ کہ دن کے کسی حصہ میں اسے ہوش آجائے - چاہے ایک لحظہ ہی - دن کے شروع میں یا پھر درمیان اورآخرمیں ہوش آنا برابر ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

صحیح قول یہی ہے کہ دن کے کسی بھی حصہ میں ہوش آنا شرط ہے ۔ اھـ

یعنی بے ہوش ہونے والے شخص کا روزہ صحیح ہونے کے لیے دن کے کسی حصہ میں ہوش میں آنا شرط ہے ۔

اس کا روزہ صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب دن میں وہ کسی بھی وقت ہوش میں آجائے تواس کا روزہ توڑنے والی اشیاء سے رکنا بالجملہ ثابت ہوگیا ۔

دیکھیں : حاشیۃ ابن قاسم علی الروض المربع ( 3 / 381 ) ۔

جواب کا خلاصہ :

جب کوئي شخص پورا دن یعنی طلوع فجر سے غروب شمس تک ہی بے ہوش رہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے ذمہ قضاء ہوگي ۔

اورجب دن کے کسی بھی حصہ میں اسےہوش آجائے تواس کا روزہ صحیح ہوگا ، امام احمد ، امام شافعی رحمہم اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے ، اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ۔

دیکھیں : المجموع ( 4 / 344 ) الشرح الممتع ( 6 / 365 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب