الحمد للہ.
مينجر نے جس كام كى طرف اشارہ كيا ہے وہ حرام ہے، اور اس طريقہ سے جو مال حاصل ہو گا وہ بھى حرام ہے، نہ تو يہ مال آپ كے ليے حلال ہے اور نہ ہى دفتر كے ليے، كيونكہ يہ مال حكومت سے فراڈ كر كے اور دھوكہ دے كر حاصل كيا گيا ہے.
سركارى اور غير سركارى ملازمين كو چاہيے كہ وہ اپنا كام ڈيوٹى احسن طريقہ سے پورى كريں، اور ان كے ليے ضرورى ہے كہ وہ نفع مند كام كريں اور اپنے محكمہ اور ملازمت والى جگہ سے نقصان اور ضرر كو دور ركھيں، وہ اپنى ملازمت اور ڈيوٹى كے متعلقہ جدوجہد اور كوشش كے عوض ميں تنخواہ ليتے ہيں.
اور جو شخص بھى اپنا كام اور ڈيوٹى اچھى طرح پورى كرتا ہے، اور اپنے محكمہ اور ملازمت والے ادارہ كے ليے مال بچائے، يا پھر وہ انہيں بہت زيادہ نفع حاصل ہونے كا باعث بنے تو اس كے ليے اپنے محكمہ اور آفس سے تنخواہ سے زيادہ رقم لينى حلال نہيں، ہاں يہ ممكن ہے كہ وہ اپنے محكمہ كو رپورٹ پيش كرے كہ اس نے يہ كام كيا ہے، اگر تو وہ اس كے ليے كوئى بدلے اور انعام كا فيصلہ كريں تو وہ لينا جائز ہے، وگرنہ وہ ان كے علم كے بغير محكمہ كے مال سے نہيں لے سكتا، اور اگر وہ ايسا كرتا ہے تو اس نے حرام كمائى كى ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" ملازمت كے كام يا جس كے ليے مزدورى كى جائے اس كام ميں اخلاص كا ہونا، اور اس كام كو مطلوبہ طريقہ سے معاہدہ ميں متفقہ شروط يا ملازمت كے نظام كے مطابق متفقہ شروط پر وہ كام پورا كرنا ضرورى ہے، اور يہ اس امانت ميں شامل ہوتا ہے جس كا ادا كرنا ضرورى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
بلا شبہ اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں اس كے مالك كے سپرد كر دو النساء ( 58 ). انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 155 - 156 ).
واللہ اعلم .