الحمد للہ.
مسلمان شخص كو اپنے معاملات كو سمجھنے كے ليے اس كى حقيقت اور تجربات كے ساتھ عقل و دانش اور حكمت كے ساتھ حل كرنا چاہيے، اور اس ميں اسے وہ اسباب استعمال كرے جن كا اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے، اسى ليے شريعت اسلاميہ نے غور فكر كرنے اور عقل و دانش تجربہ كے استعمال كرنے كے بعد اشخاص يا اعمال پر حكم لگانا مقرر كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اسى طرح اللہ سبحانہ و تعالى تمہارے ليے اپنى آيات بيان كرتا ہے تا كہ تم عقل كرو البقرۃ ( 242 ).
ہمارى شريعت ميں خواب اور سپنوں پر اعتماد كرنا بالكل نہيں ہے، نہ تو دنياوى معاملات ميں اور نہ ہى دينى احكامات ميں، كيونكہ خواب كے ذريعہ حاصل ہونے والى معرفت نہ تو يقينى ہوتى ہے اور نہ ہى منضبط.
بلكہ اس ميں شك و شبہ پايا جاتا ہے، اور شريعت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ لوگوں كو ايسى چيز كى طرف رجوع كرنے كا كہا جو واہمہ ہوں اور ادنى سے بھى علم سے ثابت نہ ہوتے ہوں.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خواب تين قسم كے ہيں: نيك خواب اللہ كى جانب سے خوشخبرى ہيں، اور غم والے خواب شيطان كى جانب سے ہوتے ہيں، اور وہ خواب جو انسان اپنے آپ سے بات كرتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2263 ).
چنانچہ انسان جو كچھ بھى خواب ميں ديكھتاہے جس طرح نفس كا اس ميں حصہ ہوتا ہے اسى طرح شيطان كا اس ميں حصہ ہوتاہے، ہر وقت اس ميں امتياز واضح نہيں ہو سكتا، اس ليے مسلمان شخص خواب ميں ديكھى گئى چيز پر مطمئن كس طرح ہوتا اور پھر اس كو بنياد بنا كر كس طرح اختيار كر سكتا ہے، حالانكہ اسے علم بھى ہے كہ ہو سكتا ہے اس ميں شيطان كا حصہ زيادہ و وافر ہو؟!
اس ميں شادى كا معاملہ بھى شامل ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سلسلہ ميں ہمارے ليے وہ صفات مقرر كر دى ہيں جس كى بنا پر رشتہ قبول يا رد كيا جا سكتا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كوئى ايسا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو پھر زمين ميں فساد پبا ہو جائيگا.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر اس ميں كچھ ہو.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، يہ بات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےتين بار فرمائى "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1085 ) امام ترمذى رحمہ اللہ نے اسے حسن غريب كہا اورعلامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس حديث ميں لوگوں كے ليے رشتہ قبول يا رد كرنے كا معيار اخلاق اور دين قرار ديا ہے، اس ليے سوال كرنے والى عزيز بہن كو چاہيے كہ وہ ان صفات كى طرف ہى الفتات كرے، اور خواب ميں ديكھے گئے معاملہ كى طرف دھيان مت دے، اور اسے تسليم مت كرے كيونكہ ہو سكتا ہے اس ميں شيطان كا حصہ ہو جس سے وہ خاوند و بيوى كے مابين اختلاف و افتراق پيدا كر كے عليحدگى كرانا چاہتا ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے " لقاء الباب المفتوح " ميں درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے كسى عورت كا رشتہ طلب كيا تو اس عورت نے اس شخص كو خواب ميں ديكھا كہ اس كى داڑھى منڈى ہوئى ہے، كيا وہ اس رشتہ كو قبول كر لے يا رد كر دے، حقيقت ميں تو اس شخص نے داڑھى ركھى ہوئى ہے اور اس كا ظاہر بھى اچھا ہے، اور دين كا التزام كرنے والا ہے، اللہ پر ہم كسى كا بھى تزكيہ نہيں كرتے.
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جس عورت نے اپنے منگيتر كو خواب ميں داڑھى منڈھى ہوئى شكل ميں ديكھا ہے اور حقيقت ميں اس شخص نے داڑھى ركھى ہوئى ہے، جو كچھ اس نے خواب ميں ديكھا اس سے اس عورت كو كوئى نقصان اور ضرر نہيں، جب وہ شخص با اخلاق اور دين والا ہے تو اس سے شادى كرنے سے انكار نہيں كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح نمبر ( 5 ) سوال نمبر ( 17 ).
ِپھر اس پر تنبيہ ضرورى ہے كہ استخارہ كا خواب كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ـ جيسا كہ اكثر لوگوں كا خيال ہے كہ استخارہ كے بعد سونا چاہيے اور خواب ميں نظر آتا ہے ـ كيونكہ استخارہ كا مقصد تو اللہ سبحانہ و تعالى سے دونوں معاملوں ميں سے بہتر اور خير والے امر كاسوال كرنا ہے، اور بہتر امر طلب كرنا مقصود ہوتا ہے.
كيونكہ استخارہ تو ايك دعا ہے جب اللہ سبحانہ و تعالى اسے قبول كر لے تو پھر اللہ تعالى استخارہ كرنے والے كے ليے ـ غور و فكر اور تامل كے بعد ـ جسے اللہ اختيار كرے اسے آسان كر ديتا ہے، اور اس دعا كا قريب يا دور سے بھى خواب كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ہے.
اس ليے سوال كرنے والى عزيز بہن كو نصيحت ہے كہ وہ اپنے معاملہ ميں رجوع كرے، اور صرف خواب كى بنا پر اپنے ازدواجى روابط خراب مت كرے، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ اپنے منگيتر كے معاملہ ميں دين و عقل كو استعمال كرتے ہوئے كوئى مناسب موقف اختيار كرے.
واللہ اعلم .