سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دکاندار کا جھوٹ بولتے ہوئے کہنا کہ؛ میری اس چیز کی اتنی قیمت لگ گئی ہے۔

سوال

ایک شخص نے کوئی چیز 100 دینار کی خریدی اور فروخت کرتے ہوئے اس نے کہا: مجھے تو اسکے 105 دینار مل رہے تھے؛ حالانکہ اسے کسی نے بھی اتنا دام نہیں دیا، تو کیا اس نے حرام کام کیا؟ یہ صحیح ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے، یا دھوکا دیا ہے، لیکن اگر وہ اس طرح سے نفع کما لیتا ہے تو کیا اس طریقے سے کمائی ہوئی کمائی حرام ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فروخت کنندگان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ خرید و فروخت کرتے ہوئے سچ بولیں، جھوٹ کا سہارا نہ لیں تا کہ اللہ تعالی ان کی تجارت میں برکت ڈال دے؛ کیونکہ جھوٹ سے بیع کی برکت مٹ جاتی ہے۔

جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خرید و فروخت میں دونوں فریقوں کو جدا ہونے سے پہلے پہلے مکمل اختیار ہے، اگر دونوں سچ بولیں اور ہر چیز واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ حقیقت چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2079) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔

بائع کا یہ کہنا کہ: اسے اس چیز کا اتنا ریٹ ملا ہے، حالانکہ اسے اتنا ریٹ نہیں ملا ہوتا تو یہ یقیناً جھوٹ ہے اور مشتری کا مال باطل طریقے سے کھانے کے زمرے میں آتا ہے؛ کیونکہ مشتری بائع کی اس بات کو مان لے کہ واقعی اسے 105 دینار دئیے جا رہے ہیں تو وہ بھی بڑھا کر بھاؤ لگا دے گا، اس طرح بائع نے مشتری کو جھوٹ بول کر دھوکا دیا اور مشتری نے ریٹ بھی بڑھا دیا، اس طرح وہ مشتری کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر گیا۔

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ریٹ بڑھانے سے منع فرمایا اور کہا کہ: دھوکا دہی سے ریٹ مت بڑھاؤ۔ اس حدیث کو امام بخاری: (2160) اور مسلم : (1515) نے روایت کیا ہے۔

دھوکا دہی سے ریٹ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ: ایک شخص خومخواہ میں آ کر چیز کا ریٹ زیادہ لگاتا ہے حالانکہ وہ خود خریدنا نہیں چاہتا اس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ دیگر خریدار زیادہ ریٹ لگائیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (6/305)میں کہتے ہیں:
"اگر بائع کہے: مجھے اس چیز کا اتنا ریٹ ملا ہے، مشتری بائع کی باتوں میں آ کر اتنے ہی ریٹ میں خرید لیتا ہے، لیکن بعد میں مشتری کو پتہ چلتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔ تو یہی دھوکا دہی کے ساتھ ریٹ بڑھانا ہے۔" ختم شد

اس بنا پر یہ حرام ہو گا؛ کیونکہ اس میں جھوٹ اور دھوکا دہی ہے، ایسے بائع کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مشتری کو مکمل طور پر حقیقت حال سے آگاہ کرے، اور اس طرح مشتری کو پورا اختیار حاصل ہو گا کہ بیع فسخ کر دے یا اضافی رقم مشتری کو واپس کرنے پر دونوں کا اتفاق ہو جائے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (8/302) میں کہتے ہیں:
"بیع نجش: یہ ہے کہ بائع جھوٹ بولتے ہوئے مشتری سے کہے: مجھے اس مال کا اتنا ریٹ مل رہا ہے۔ ایسے میں مشتری یہ کہے گا کہ اگر آپ کو ریٹ 200 ملا ہے تو میں اسے 210 میں خریدتا ہوں۔ مشتری یہ کہہ کر 210 میں خرید لیتا ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس کی اصل قیمت 150 تھی، تو ایسی صورت میں مشتری کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گا؛ کیونکہ مشتری کو نجش جیسی صورت میں دھوکا دیا گیا ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب