سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ديندار شخص مگر فقير و تنگ دست سے شادى كرنا

سوال

ايك پچاس سالہ مطلقہ عورت كو ايك چون سالہ شخص كا علم ہوا اس شخص كى طرف ميلان كى سب سے بڑى وجہ اس كا ديندار ہونا ہے كيونكہ وہ دينى امور كا التزام كرتا ہے حالانكہ وہ تنگ دست اور فقير بھى ہے ليكن دين كى وجہ سے ميں اس كى طرف مائل ہوں.
ميں بھى دين پر عمل كرنے والى ہوں اور اسى طرح اللہ كا خوف ركھتى ہوں، ميرا ارادہ ہے كہ اپنے آپ كو عفيف بناؤں اور اس كى تنگ دستى كے باوجو اس شخص سے شادى كر لوں، ليكن ميرى ماں اس كى تنگ دستى كى بنا پر اس سے شادى كى رغبت نہيں ركھتى، كيا اگر ميں اس سے شادى كر لوں تو گنہگار تو نہيں ہونگى ؟
اور كيا اگر ميں اپنے خاوند كا خرچ برداشت كروں تو كيا مجھے ا سكا اجروثواب حاصل ہو گا، ميرا مہر صرف ايك انگوٹھى ہے كيونكہ ميں مادہ پرست عورت نہيں، اور ميں اللہ كے ليے خير و بھلائى كے كام كرنا چاہتى ہوں.
يہ علم ميں رہے كہ بيس برس سے ميں مطلقہ ہوں، اور اپنى بيس سالہ بچى كى تربيت كى بنا پر ميں نے آنے والے ہر رشتہ كو ٹھكرا ديا تھا، اور اسى طرح اپنے والد كى ديكھ بھال كرتى رہى ہوں اور اب وہ فوت ہو چكے ہيں اللہ ان پر رحم كرے، جب فوت ہوئے تو وہ مجھ پر بہت خوش تھے.
اور اب ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميرا خاوند ہونا چاہيے برائے مہربانى اس كے متعلق مجھ كچھ معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر اس شخص كا دين اور اخلاق صحيح اور پسنديدہ ہے تو اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے وہ فقير اور تنگ دست ہى ہے؛ كيونكہ ترمذى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور اس كے ليے آپ كى رضامندى سے آپ كا مال لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كو اپنے خاوند كا خرچ برداشت كرنے اور اس كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا اجروثواب حاصل ہو گا اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

چنانچہ اگر وہ اپنى خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں ت واسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ النساء ( 4 ).

اور پھر فقر و تنگ دستى كوئى عيب نہيں، كيونكہ مال تو آنے جانے والى چيز ہے، اور فقير و تنگ دست غنى و مالدار بھى ہو سكتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم ميں سے جو مرد و عورت بےنكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى، اگر وہ مفلس و تنگ دست بھى ہوں گے تو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى بنا دےگا، اللہ تعالى كشادگى والا اور علم والا ہے النور ( 32 ).

آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى والدہ كو مطمئن كريں اور اس كے سامنے واضح كريں كہ معيار مال نہيں، بلكہ تقوى اور عمل صالح معيار ہے.

اور اگر آپ كى والدہ اپنى رائے پر اصرار كرے اور آپ كے خيال ميں آپ كا اس شخص سے شادى كرنا صحيح ہے، نكاح كے صحيح ہونے كے ليے آپ كى شادى ميں آپ كا ولى ہونا ضرورى ہے نكاح كے ليے ولى كى شرط ہے، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور عورت كا ولى اس كا والد پھر اس كا بيٹا اور پھر ا سكا بھائى پھر اس كا بھانجا اور پھر اس كا چچا اور پھر چچا كا بيٹا جو كہ عصبہ كى ترتيب سے ہوتا ہے.

اور اگر اس كا ولى نہ ہو تو پھر قاضى اس كى شادى كريگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں اس كا حكمران والى ہو گا "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر عورت كا شادى كرنے كى كوشش اور مہر ميں آسانى كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ كافى عقلمند ہے اور اس كى سوچ بھى اچھى ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے سب معاملات ميں آسانى پيدا كرے، اور آپ كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب