الحمد للہ.
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ خون حيض كا نہيں، اور نہ ہى نماز روزہ كى ادائيگى ميں مانع ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا كہ:
رمضان المبارك ميں ايك عورت كو تھوڑا سا خون آيا اور يہ سارا مہينہ آتا، اور وہ روزے ركھتى رہى، كيا اس كے روزے صحيح ہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جى ہاں اس كے روزے صحيح ہيں، اور خون كے يہ قطرے كچھ شمار نہيں ہونگے، كيونكہ يہ رگوں كا خون تھا " انتہى.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 1 / 137 ).
شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" عام قاعدہ ہے كہ:
جب عورت پاك صاف ہو جائے اور اس نے حيض يا نفاس ميں يقينى طہر ديكھ ليا، ميرى مراد يہ ہے كہ اسے حيض ميں سفيد مادہ جسے عورتيں سفيد پانى كے نام سے جانتى ہيں آئے تو اس طہر كے بعد آنے والا گدلا پانى يا زرد يا قطرہ يا رطوبت خارج ہو تو يہ سب حيض شمار نہيں ہونگے، اور نہ ہى نماز روزہ ميں مانع ہيں، اور نہ ہى خاوند كے ليے بيوى سے جماع كرنے ميں ركاوٹ بنےگا، كيونكہ يہ حيض نہيں " انتہى.
ديكھيں: حيض كے ساٹھ سوالات.
واللہ اعلم .