ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

ولى كے بغير شادى كى اور عورت كى غير موجودگى ميں ہى نكاح ہوا

93967

تاریخ اشاعت : 27-01-2015

مشاہدات : 3665

سوال

ميں نے كچھ عرصہ سے ايك شخص كے ساتھ كچھ اسباب و حالات كے پيش نظر ايك وكيل كے ذريعہ عقد نكاح كيا، اس شرط پر كہ جب يہ حالات اور اسباب ختم ہو جائيں گے تو ہم ان شاء اللہ نكاح خواں كے پاس جا كر نكاح كر ليں گے.
اور عقد نكاح ميں كچھ لكھا گيا وہ سب صحيح تھا اور گواہوں ميں وكيل خود اور اس كا بھائى تھا.... ليكن ميں خود وہاں حاضر نہيں ہو سكى كيونكہ حالات ہى ايسے بن گئے تھے اور اس معاملہ كى تكميل ضرورى تھى اس ليے ميرى غير حاضرى ميں ہى عقد نكاح ہوا....
كيونكہ وكيل بااعتماد تھا اور وہ بھى ہم پر بھروسہ كرتا تھا.. اور جب ميرے خاوند نے عقد نكاح حاضر كيا تو ہم نے قرآن مجيد پر ہاتھ ركھ كر آپس ميں شادى كے كلمات كى ادائيگى كہ ہم امام ابو حنيفہ كے مسلك كے مطابق اللہ اور اس كے رسول كى سنت پر شادى كرتے ہيں...
ميرے خاوند نے سفر پر جانے تك ميرے ساتھ ازدواجى تعلقات قائم كيے... ميرا سوال يہ ہے كہ جو كچھ ہوا كيا وہ حلال تھا يا حرام ؟ كيونكہ ميں اندرونى طور پر پريشان ہوں اور مجھے خدشہ ہے كہ جو كچھ ہوا ہے وہ مكمل نہيں كيونكہ ميں حاضر نہيں تھى اور نہ ہى گواہوں نے ميرى بات سنى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہميں بہت ہى زيادہ افسوس ہے كہ مسلمان اس عقد نكاح سے كھلواڑ كرتے پھرتے ہيں جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے ميثاق غليظ كا نام ديا ہے، ليكن اس حد تك مسلمان اس سے كھيلنے لگے ہيں.

اور ہميں اللہ كى حرام كردہ امور ميں لوگوں كى اس جرات پر تعجب بھى ہے.

تو كيا يہ وكيل اور يہ گواہ اپنى بيٹى يا بہن سے راضى ہونگے كہ وہ بھى اسى طرح نكاح كريں، اور اسے علم بھى نہ ہو اور وہ اس پر موافق بھى نہ ہوں.

ہمارے خيال جس ميں تھوڑى سے بھى مردانگى و عقل ہے وہ اپنى بيٹى يا بہن كے ليے اس پر راضى نہيں ہوگا، تو پھر يہ لوگ دوسرے لوگوں كى بيٹيوں كے ساتھ ايسا كرنے پركيوں راضى ہو جاتے ہيں.

پھر ان گواہوں نے گواہى كس چيز پر دى، حالانكہ بيوى تو وہاں موجود ہى نہيں، اور انہوں نے اس سے كچھ سنا بھى نہيں، يا پھر اس كے ولى سے بھى كچھ نہيں سنا كہ وہ اس شادى پر راضى و موافق ہے.

كسى بھى گواہ كے ليے حلال نہيں كہ وہ كسى ايسى چيز كى گواہى دے جسے وہ جانتا ہى نہيں، صرف كسى وكيل كا قابل اعتماد ہونا يا پھر كسى دوسرے كو قابل اعتماد سمجھ لينے سے كسى ايسى چيز كى گواہى دينا جائز نہيں ہو جاتى جسے وہ جانتے ہى نہيں.

دوم:

اس كيفيت سے نكاح صحيح نہيں؛ كيونكہ كسى بھى عورت كے ليے اپنا نكاح خود كرنا صحيح نہيں، بلكہ نكاح صحيح ہونے كے ليے عورت كے ولى كا موجود ہونا اور اس كى موافقت شرط ہے.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى كے بغير نكاح نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1893 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك دوسرى روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے اس كا نكاح باطل ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1840 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور آپ كا يہ كہہ دينا كہ: شادى امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے مسلك كے مطابق ہوئى ہے، اس سے حكم ميں كچھ تبديلى نہيں ہوگى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كى موجودگى ميں كسى كے قول كى بھى كوئى اہميت نہيں اور جيسا كہ آپ كو معلوم ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فيصلہ كر ديا ہے كہ عورت اپنا نكاح خود نہيں كر سكتى، اور جو عورت اپنا نكاح خود كرتى ہے اس كا نكاح باطل ہے.

اس مسئلہ ميں شيخ احمد شاكر رحمہ اللہ كى بہت ہى نفيس كلام ہے جسے ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:

" حديث كا علم ركھنے والے اہل علم اس حديث " ولى كے بغير نكاح نہيں " كے صحيح ہونے ميں كوئى شك نہيں كرتے، يہ حديث ايسى اسانيد سے ثابت ہے جو قريب ہے معنى تواتر تك پہنچ جائيں، جو اپنے معانى كے اعتبار سے قطعى تواتر كا موجب ہے، سب اہل علم كا قول يہى ہے، اور قرآن مجيد ميں فقہ بھى اس كى تائيد كرتى ہے، ـ ہمارے علم كے  مطابق تو ـ صرف فقھاء احناف اور ان كے پيروكار اور مقلد حضرات كے علاوہ كسى نے بھى اس كى مخالفت نہيں كى.

متقدمين احناف كے ہاں تو كوئى عذر ہو سكتا ہے كہ انہيں اس وقت اس كى صحيح اسناد نہ پہنچيں ہوں، ليكن متاخرين احناف تو ان كے سروں پر سوار ہوئے اور انہيں تعصب نے آ گھيرا ہے، اس طرح وہ بغير كسى دليل و حجت كے بغير كسى انصاف كے احاديث كو ضعيف كر رہے يا ان كى تاويل كرتے پھرتے ہيں.

اب ہم اكثر ان اسلامى ممالك جو اس مسئلہ ميں حنفى مسلك كو اختيار كرتے ہيں ميں ديكھتے ہيں كہ وہاں اس كے منفى آثار ہيں انہوں نے جس پر عمل كيا ہے اس نے اخلاق اور آداب كو تباہ كر كے ركھ ديا ہے، اور عزت خاك ميں ملا دى ہے اكثر وہ عورتيں جو ولى كے بغير نكاح كرتى ہيں يا پھر ان كے نہ چاہتے ہوئے بھى شرعى طور پر باطل نكاح كرتى ہيں وہ صحيح نسب كے ضائع ہونے كا سبب بن رہا ہے.

ميں ہر ملك كے علماء اسلام كو دعوت ديتا ہوں كہ وہ اس خطرناك مسئلہ ميں ذرا غور و فكر كريں، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول نے جو حكم ديا اس كى طرف واپس پلٹ آئيں، كہ نكاح ميں عقل و رشد والے ولى كى نكاح پر شرط ركھيں، تا كہ ہم بہت سارے اخلاقى اور ادبى بگاڑ سے بچ سكيں، جس ميں آج جہالت و مصنوعى اور جھوٹى آزادى كےنعروں اور خواہشات كى پيروى كى بنا پر عورتيں پڑ چكى ہيں، خاص كر غلط كا طبقہ جس سے دل و سينہ افسوس و غم سے بھر جاتا ہے اللہ سبحانہ وتعالى انہيں اور ہميں اپنى شريعت پر عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہميں برے انجام سے محفوظ ركھے " انتہى

ديكھيں مختصر تفسير ابن كثير ( 1 / 286 ).

اس بنا پر آپ كے مابين جو نكاح ہوا ہے وہ صحيح نہيں ہے، اور اس نكاح كو صحيح كرنے كا طريقہ يہ ہے كہ آپ دوبارہ گواہوں اور اپنى ولى كى موجودگى ميں نكاح كرائيں.

اللہ تعالى آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب