سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بچيوں كے گڈياں پٹولے حرام تصاوير سے مستثنى

9473

تاریخ اشاعت : 08-04-2008

مشاہدات : 9274

سوال

ميں نے مجسمہ اور مسطحہ تصاوير كے متعلق پڑھا ہے كہ يہ حرام ہيں، تو پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اون اور كپڑے كے كھلونوں كے ساتھ كيوں كھيلا كرتى تھيں اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى انہيں اس سے كيوں منع نہ كيا ؟
بہت سارے دين اسلام كا صحيح التزام كرنے والے مسلمانوں كى بچياں بھى كھلونوں سے كھيلتى ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ اون اور كپڑے كے كھلونے تصاوير شمار نہيں ہوتے، كيونكہ ان ميں نہ تو سر صرف اون وغيرہ كا ايك ٹكڑا ہى ہوتا ہے، اور اس ميں چہرے كے باقى نشانات يعنى نہ تو كان ہوتے ہيں، اور نہ ہى آنكھيں، اور نہ ہى ناك اور منہ، اور جب تصوير سر اور اس ميں موجود نشانات و علامات سے خالى ہو تو اس كى حرمت ختم ہو جاتى ہے.

پھر اگر ہم يہ تسليم بھى كر ليں كہ يہ تصوير ہے، تو اس كا معنى يہ نہيں كہ اس سے مطلقا تصاوير مباح ہو جاتى ہيں، بلكہ يہ تو حرمت ميں سے ايك شرعى غرض كى بنا پر مستثنى ہے، اور وہ يہ كہ بچيوں كى تعليم و تعليم اور پرورش اور ان ميں موجود ماں والى حس كو بڑھانا اور اسے نمو دينا تا كہ وہ مستقبل كے ليے تيار ہو جائيں.

اكثر علماء كرام نے تصاوير اور مجسمے بنانے كى حرمت سے بچيوں كے گڈياں اور پٹولے مستثنى كيے ہيں، مالكيہ، شافعيہ اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے، اور قاضى عياض رحمہ اللہ نے بھى اكثر علماء كرام سے اس كا جواز نقل كيا ہے، اور امام نووى رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كى شرح ميں قاضى كے قول كى متابعت كرتے ہوئے كہا ہے:

" تصوير كى ممانعت سے وہ كچھ مسثنى ہے جس كا سايہ نہ ہو اور بچيوں كے گڈياں پٹولے، كيونكہ اسميں رخصت وارد ہے، اور اس كا معنى جواز ہے، چاہے وہ گڈياں اور پٹولے اور كھلونے انسان كى شكل و ہيئت يا حيوان كى شكل و ہيئت ميں مجسمہ يا غير مجسمہ ہوں، اور چاہے اس كى حيوانات ميں مثال ملتى ہو يا نہ ملتى ہو، جيسا كہ پروں والا گھوڑا ....

اور جمہور علماء كرام نے اس استثناء كا جواز عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث سے كيا ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اپنى گڈيوں اور پٹولوں ( بچيوں كے كھلونے ) سے كھيلا كرتى تھى، اور ميرى سہيلياں بھى تھيں جو ميرے ساتھ كھيلا كرتى تھيں، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر ميں داخل ہوتے وہ آپ سے شرما كر بھاگ جاتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں ميرے پاس بھيج ديتے تو وہ ميرے ساتھ كھيلا كرتى "

اور ايك روايت ميں ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ جنگ تبوك يا جنگ خيبر سے واپس تشريف لائے اور ميرے طاقچہ ( ديوار ميں اشياء ركھنے كے ليے جگہ ) پر پردہ لگا ہوا تھا، اسى اثناء ميں ہوا چلى تو ايك جانب سے طاقچہ كا پردہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى گڈيوں اور پٹولوں سے پردہ سرك گيا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: اے عائشہ يہ كيا ؟

تو ميں نے جواب ميں عرض كيا: يہ ميرى گڈياں ہيں.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے درميان ايك گھوڑا ديكھا جسے كپڑے كے پر لگے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يہ ان كے درميان ميں كيا ديكھ رہا ہوں ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: يہ گھوڑا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: اور اس پر كيا لگا ہوا ہے ؟

تو انہوں نے عرض كيا: يہ دو پر ہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے: گھوڑے كے دو پر بھى ہوتے ہيں ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا عرض كرنے لگيں: كيا آپ نے سنا نہيں كہ سليمان عليہ السلام كے ايك گھوڑے كے پر تھے ؟

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ: تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہنسنے لگے حتى كہ ميں نے آپ كى داڑھيں ديكھيں "

مالكى اور شافعى اور حنبلى حضرات نے اس كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ بچيوں كو اولاد كى تربيت كرنے كى تعليم دينے كے ليے مستثنى ہے كہ اس غرض كے ليے بچيوں كے ليے كھلونے بنانا جائز ہيں.

اور يہ تعليل اس ميں ظاہر ہوتى ہے چاہے وہ كھلونا انسان كى ہيئت ميں ہو، اور يہ اس گھوڑے كے معاملہ ميں ظاہر نہيں جس كے دو پر تھے، اس ليے حليمى نے يہ بھى اور اس كے علاوہ اور بھى تعليل بيان كى ہے، اس كى كلام درج ذيل ہے:

بچوں كے ليے اس ميں دو فائدے ہيں، ايك تو جلدى والا فائدہ ہے اور دوسرا فائدہ دير والا ہے، جلدى والا فائدہ يہ كہ: بچوں ميں نشو و نما كا مادہ پايا جاتا ہے اس سے انسيت، كيونكہ بچہ اگر دلى طور پر خوش ہوگا اور اس كا شرح صدر ہو گا تو اس كى نشو ونما بھى قوى ہوگى، كيونكہ سرور و خوشى دل كو خوش و باغ باغ كر ديتى ہے اور دل خوش اور منبسط ہونے ميں روح بھى منبسط ہوتى ہے، اور وہ بدن ميں پھلتى پھولتى ہے، اور ا سكا اعضاء و جوارع ميں اثر مضبوط ہوتا ہے.

اور دير والا فائدہ يہ ہے كہ:

وہ اس سے بچوں كى تربيت اور ان سے محبت اور ان پر شفقت كرنا سيكھيں گى، اور يہ چيز كى طبيعت ميں شامل ہو جائيگى حتى كہ جب وہ بڑى ہونگى اور تو اپنى اولاد كےليے بھى وہى كچھ كرينگى جو انہيں اپنے ليے خوش اور اچھا لگتا تھا، كہ اولاد كو بھى اس كا حق ہے.

اور ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں بعض علماء سے يہ دعوى نقل كيا ہے كہ:

كھلونے بنانا حرام ہے، شروع ميں جائز تھے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تصاوير سے ممانعت كے عموم كى بنا پر منسوخ كر ديے گئے.

ليكن اس دعوى كا رد يہ ہے كہ نسخ كے دعوى كى بھى اسطرح مخالفت ہے، وہ اس طرح كہ كھلونوں سے كھيلنے كى اجازت بعد ميں تھى، وہ اس طرح كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں يہ بيان ہوا ہے جو اس كى تاخير پر دلالت كرتا ہے، كيونكہ اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ يہ واقعہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جنگ تبوك سے واپسى كے موقع پر پيش آيا، تو يہ اس كے متاخر ہونے كى دليل ہے "

الموسوعۃ الفقھيۃ مادۃ تصوير.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد