الحمد للہ.
جب آپ نے فجر سے قبل پاك ہونے كا يقين كر كے روزے كى نيت كر لى، چاہے ايك منٹ قبل ہى تو آپ كا روزہ صحيح ہے، چاہے غسل ميں تاخير بھى ہو.
آپ مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 7310 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اگر آپ كو پاك ہونے ميں شك تھا، ليكن اس كے باوجود آپ نے روزے كى نيت كر لى، تو حيض سے پاك ہونے ميں شك كى بنا پر آپ كا روزہ صحيح نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل مسئلہ دريافت كيا گيا:
ايك عورت نے حيض سے پاك ہونے ميں شك كى حالت ميں ہى روزہ ركھ ليا، اور جب صبح ہوئى تو وہ پاك تھى، تو كيا ا سكا روزہ صحيح ہو گا، حالانكہ اسے طہر كا يقين نہ تھا ؟
شيخ كا جواب تھا:
ا سكا روزہ نہيں ہوا، بلكہ اس دن كے روزے كى اسے قضاء ميں روزہ ركھنا ہوگا، اس ليے كہ اصل ميں ابھى ا سكا حيض باقى تھا، اور طہر كا يقين نہ ہونے كى حالت ميں ا سكا روزہ ركھنا شك كے ساتھ عبادت ميں داخل ہونا ہے، حالانكہ عبادت صحيح ہونے كى شرط طہر ہے، اور شك اس عبادت كے صحيح ہونے ميں مانع ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 107 ).
اور جب عورت كو علم ہو جائے كہ وہ حيض سے پاك ہو گئى ہے تو نماز كے ليے اس پر غسل كرنا واجب ہو جاتا ہے، اور اس ميں اتنى تاخير كرنى جائز نہيں كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے، اور اگر وہ ايسا كرتى ہے تو اسے توبہ كرنا ہوگى، اور اس كے ساتھ فوت شدہ كى قضاء بھى.
اور اگر وہ بھول جائے كہ وہ حيض سے پاك ہو چكى ہے ـ جيسا كہ آپ نے اپنے سوال ميں بيان كيا ہے ـ تو ان شاء اللہ نماز ميں تاخير كرنے كى بنا پر اس پر كوئى گناہ اور حرج نہيں، بلكہ جيسے ہى اسے ياد آئے تو وہ غسل كر نماز ادا كر لے، جيسا كہ آپ نے كيا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كومعاف فرمائے اور عافيت سے نوازے.
واللہ اعلم .