سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

وكالت كا پيشہ اختيار كرنے كا حكم

9496

تاریخ اشاعت : 14-06-2005

مشاہدات : 7150

سوال

وكالت كا پيشہ اختيار كرنے سے بعض اوقات شر اور برائى كى مدد اور اس كا دفاع كرنا پر جاتا ہے، كيونكہ وكيل نے اپنے موكل كى برات پيش كرنا ہوتى ہے، تو كيا وكيل كى اس طرح كمائى كرنا حرام ہے؟
اور كيا وكيل كے ليے كوئى اسلامى شروط ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

محاماۃ كا لفظ الحمايۃ ميں سے مفاعلۃ كے وزن پر ہے، اور اگر يہ حمايت اور بچاؤ شر كى ہو اور شر كا دفاع كيا جائے تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہے، كيونكہ اس طرح اللہ تعالى كى حكم كى خلاف ورزى كا ارتكاب ہوتا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم گناہ ومعصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو.

اور اگر خير و بھلائى كى حمايت ہو، اور خير كے دفاع ميں بات كى جائے تو يہ حمايت قابل ستائش وتعريف ہے، اور اللہ تعالى نے اس كا حكم بھى ديا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم نيكى و بھلائى ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو.

اور اس بنا پر جس نے بھى اپنے آپ كو وكالت كے پيشہ كے ليے تيار كيا اس پر واجب ہے كہ وہ كسى بھى معاملہ اور مقدمہ كى وكالت كرنے سے قبل اس مقدمہ كو اچھى طرح ديكھے، اور مكمل تيارى كرے اگر تو حق اسے وكيل بنانے والے شخص كے ساتھ ہے تو وہ اس مقدمے كى پيروى كرنے كے ليے وكيل بن جائے، تو اس طرح وہ حق اور صاحب حق كا ممد و معاون بنے گا.

ليكن اگر حق اسے وكيل بنانے كى بجائے دوسرے فريق كا ہو تو پھر بھى اسے وكيل بننا چاہيے ليكن اس كى وكالت اپنے موكل كے مطالبہ كے برعكس ہونى چاہيے، يعنى اسے اپنے موكل كے خلاف بات كرنا ہو گى تا كہ وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ معاملہ اور اپنے دعوى ميں داخل نہ ہو، يہ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنے بھائى كى مدد و معاونت كرو، چاہے وہ ظالم ہو يا مظلوم، تو صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ تو مظلوم كے متعلق ہے، ليكن جب كوئى ظالم ہو تو ہم اس كى مدد كس طرح كريں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اسے ظلم سے منع كرو اور روكو، تو تمہارى اس كے ساتھ يہى مدد ہے"

لہذا اگر يہ علم ہو جائے كہ موكل اپنے دعوى ميں سچا نہيں، تو پھر اسے نصيحت كرنى اور اسے آگاہ كرنا، اور اس مقدمہ ميں پڑنے سے ڈرانا، اور اس كے دعوى كا باطل ہونے كى وضاحت كرنى ضرورى اور واجب ہے، تا كہ وہ اس پر مطمئن ہو كر اسے ترك كر دے .

ماخذ: ديكھيں: مجلۃ الدعوۃ ( عربى ) عدد نمبر ( 1789 ) صفحہ نمبر ( 61 )