الحمد للہ.
اول:
خاوند اور بيوى كے مابين محبت و الفت اور مودت و پيار اور صلہ رحمى و حسن سلوك كا تعلق ہونا چاہيے، خاص كر جب دونوں ميں پہلے سے رشتہ دارى پائى جائے تو يہ محبت و الفت اور حسن سلوك اور زيادہ ہونا چاہيے، كيونكہ اس طرح تو رشتہ دارى اور خاوند بيوى كے دو حق اكٹھے ہو جاتے ہيں، اس ليے دونوں كو يہ تعلق پيدا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے.
خاوند اور بيوى كے مابين حاصل ہونے والى سوء معاشرت بعض اوقات خاوند كى وجہ سے اور بعض اوقات بيوى كى بنا پر اور بعض اوقات دونوں كى وجہ سے ہوتى ہے، اس ليے آپ كو چاہيے كہ بيوى آپ كے احترام ميں كمى كيوں كرتى ہے اس كا سبب كيا ہے، اور وہ آپ كى بات كيوں نہيں مانتى كہيں اس كا سبب آپ تو نہيں، چاہے جو بھى سبب ہو آپ اس كا علاج كريں.
جن عورتوں كى نئى نئى شادى ہوتى ہے ان ميں بعض عورتوں كو خاوند كى اطاعت كى اہميت كا ادراك نہيں ہوتا، اور نہ ہى وہ مرد كى قواميت و نگرانى و حكمرانى كا مفہوم سمجھ پاتى ہيں جو مرد كے ليے خاص ہے، اس ليے انہيں اس كا ادراك كرنے كے ليے كچھ وقت كى ضرورت ہوتى ہے.
اور ہو سكتا ہے انہيں اپنے درميان كسى ايسى عورت كى بھى ضرورت ہو جو انہيں يہ اشياء سكھائے، اس ليے آپ كچھ كيسٹيں اور كتابيں جن ميں اس موضوع كے بارہ ميں بيان كيا گيا ہو لا كر بيوى كو ديں، ان ميں ازدواجى زندگى اساس اور كامياب كے اسباب بيان كيے گئے ہوں.
في وقت نفسہ بعض مرد حضرات مبالغہ كرتے ہوئے بيوى سے ہر چيز ميں ہى اطاعت كرانا چاہتے ہيں، اگر بيوى اس سے كسى معاملہ ميں بات چيت اور مناقشہ كرے يا كوئى تجويز پيش كرے يا پھر خاوند كى جانب سے كہے گئے كام ميں كچھ تاخير كر دے تو وہ بيوى پر نافرمان اور بددماغ ہونے اور اللہ كى مخالفت كرنے اور بےادبى كا الزام لگا ديتے ہيں.
حالانكہ مرد كو اپنى بيوى كے ساتھ نوكر اور ملازمہ جيسا معاملہ نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ بيوى كو بھى احترام اور مشورہ اور اپنى رائے كے اظہار كا حق حاصل ہے، بہتر اور اچھے كام تك جانے كے ليے مناقشہ كا بھى حق حاصل ہے.
دوم:
بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے خاوند اور بچوں كے ساتھ عليحدہ رہائش ميں رہے جہاں كوئى دوسرا اس رہائش ميں شريك نہ ہو، نہ تو خاوند كا ماں باپ اور نہ ہى كوئى اور رشتہ دار.
كاسانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر خاوند اپنى بيوى كو اس كى سوكن يا پھر اپنے كسى رشتہ دار مثلا والدںہ يا بہن يا دوسرى بيوى كى بيٹى وغيرہ دوسرے رشتہ دار كے ساتھ ركھنا چاہے اور بيوى ان كے ساتھ رہنے سے انكار كر دے؛ تو خاوند كو اسے عليحدہ گھر ميں ركھنا ہوگا.
كيونكہ ہو سكتا ہے وہ دوسرے افراد اسے ضرر ديں اور رہائش ميں اس كے رہنے سے انہيں خود بھى تكليف ہو، اور پھر بيوى كا ان كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں رہنے سے انكار كرنا ہى دليل ہے كہ اسے اذيت و ضرر ہے، اور اس ليے بھى خاوند كو بيوى سے كسى بھى وقت مجامعت و ہم بسترى كرنا ہوتى ہے اور اگر كوئى تيسرا گھر ميں ہو تو ايسا ممكن نہيں ہو سكتا " انتہى
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 4 / 24 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہ اختيار كيا ہے كہ اگر خاوند تنگ دست و فقير ہو اور وہ بيوى كے ليے عليحدہ رہائش نہ لے سكتا ہو، تو پھر بيوى كو كوئى ايسا مطالبہ كرنے كا حق نہيں جس كے پورا كرنے سے خاوند عاجز ہو "
ماخوذ از: مطالب اولى النھى ( 5 / 122 ).
بلكہ اسے صبر كرنا چاہيے.
حاصل يہ ہوا كہ: عليحدہ رہائش حاصل كرنا بيوى كا حق ہے، چاہے عقد نكاح ميں اس نے شرط نہ بھى ركھى ہو تو اسے اب مطالبہ كرنے كا حق ہے، اس مطالبہ كى بنا پر وہ نافرمان شمار نہيں ہوگى.
اور آج كل لوگوں ميں جو يہ مشہور ہے كہ ايسا كرنا بھائيوں كے مابين عليحدگى اور جدائى كرنا ہے، يہ بات قابل التفات نہيں، كيونكہ يہ تو بيوى كا شرعى حق ہے، اور پھر خاوند اور بيوى دونوں كا ہى اس ميں فائدہ اور مصلحت ہے، كہ وہ دونوں دوسرے سے اختلاط سے بچ جاتے ہيں، اور نظر سے محفوظ رہتے ہيں اور جسے معلوم كرنا اور اطلاع پانا حلال نہيں اس سے بھى محفوظ رہتے ہيں.
افسوس كى بات ہے كہ بہت سارے گھرانے جہاں سب بھائي وغيرہ اكٹھے رہتے ہيں اس گھر ميں بھائى اپنى بھابھى پر مطلع ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو ايك دوسرے سے مصافحہ اور خلوت بھى ہوتى ہے، اور اس كے نتيجہ ميں غيرت و حسد اور اختلاف و جھگڑا پيدا ہو جاتا ہے، اور پھر اولاد كى وجہ سے بھى اختلافات پيدا ہو جاتے ہيں.
بلاشك و شبہ بھابھى اور ديور ايك دوسرے كے ليے اجنبى ہيں، اس ليے نہ تو اس كے ليے بھابھى سے مصافحہ كرنا جائز ہے، اور نہ ہى خلوت يا پھر جان بوجھ كر ديكھنا بھى جائز نہيں، ليكن اگر دوسرى طرف سے اس كا محرم بنتا ہو يعنى رضاعت كے اعتبار سے.
مشتركہ گھروں كو ديكھنے والے يقينى طور پر يہى كہے گا كہ جو علماء كرام نے كہا ہے اسى ميں حكمت ہے اور وہى مصلحت ہے، كہ بيوى كو عليحدہ گھر ميں ركھنا چاہيے، ايسے گھروں ميں جہاں اكٹھے رہا جاتا ہے اور والدين بھى وہيں رہتے ہيں ميں خاوند اور بيوى كے اختلافات ہوتے ہيں، اور اسى طرح بھائيوں كے مابين بھى اختلافات شروع ہو جاتے ہيں، اور ساس بہو كا بھى جھگڑا رہتا ہے.... اسى طرح اس كے علاوہ اور بہت سارى غير شرعى اشياء اور مخالفات پيدا ہو جاتى ہيں.
اس جواب كے آخر ميں ہم آپ كو يہى نصيحت كريں گے كہ آپ اپنى بيوى اور والدہ اور خاندان والوں كے مابين موافقت كى كوشش كريں، اور ہر ايك حقدار كو اس كا حق ديں، آپ بيوى كى عليحدہ گھر كا حق ديں، اور اس ميں اگر كوئى ناراض ہوتا ہے تو آپ كو كوئى ضرر و نقصان نہيں، كيونكہ آپ بيوى كو عليحدہ گھر ميں ركھ كوئى غلط كام نہيں كر رہے بلكہ اس كا حق ادا كر رہے ہيں.
ليكن آپ اپنى والدہ اور گھر كے دوسرے افراد كے ساتھ صلہ رحمى كرتے رہيں.
اور اگر آپ فى الوقت بيوى كے ليے عليحدہ رہائش لينے كى استطاعت نہيں ركھتے تو آپ كے ليے بيوى سے وعدہ كرنا ممكن ہے، اس سے اچھا وعدہ كريں، اور اسے صبر و تحمل كى تلقين كريں كہ اللہ تعالى اپنے فضل و كرم سے ہميں عليحدہ گھر بھى عطا فرمائيگا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے، اور آپ كو ايك بات پر اكٹھا كردے، اور آپ دونوں ميں محبت و مودت اور الفت و پيار اور نيكى و حسن سلوك زيادہ كرے.
واللہ اعلم .