سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

فتوى كى بنا پر بيوى سے دروان عدت رجوع كر ليا ليكن اس فتوى كے خلاف فتوى حاصل ہونے پر بيوى نے كسى دوسرے سے نكاح كر ليا!

95500

تاریخ اشاعت : 14-05-2013

مشاہدات : 5586

سوال

ميں نے ايك عورت سے شادى كى اور اس سے ميرا ايك بيٹا بھى ہے، ہمارے درميان اختلاف ہوا تو ميں نے اسے طلاق دے دى، دوران عدت ميرے اور بيوى كے بھائى كے درميان تلخ كلامى ہوگئى تو ميں نے اسے كہا: " اگر فلاں عورت فجر سے قبل ميرے گھر نہ آئى تو اسے تين طلاق "
ليكن اس كے بھائى نے آنے سے روك ديا اور وہ نہ آ سكى، اس وقت ميں نے اس سے رجوع نہيں كيا تھا، كچھ عرصہ بعد ميں نے ايك عالم دين سے مسئلہ دريافت كيا تو انہوں نے مجھے بتايا كہ ميں اس سے رجوع كر سكتا ہوں، ليكن مجھے يہ نہيں بتايا گيا كہ دوسرى طلاق واقع ہوئى يا نہيں.
دو برس كے بعد بہت بڑى مشكل كھڑى ہوگئى جس ميں گھر والوں كا بہت حصہ تھا، تو ميں نے اسے طلاق دے دى، ليكن ميں دوران عدت اپنى مطلقہ سے ملتا رہا اور آپس ميں ازدواجى تعلقات بھى قائم كيے، چنانچہ ميں نے اپنے ملك كے ايك عالم دين سے جو كہ عدالت ميں كام كرتا تھا سے دريافت كيا تو اس نے مجھے لكھ كر فتوى ديا كہ جس طلاق كے بارہ ميں مجھے كچھ نہيں بتايا گيا تھا وہ طلاق واقع ہى نہيں ہوئى، كيونكہ طلاق يافتہ عورت كو دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى.
اور ازدواجى تعلقات قائم كرنے كے ساتھ ميرا رجوع صحيح ہے، ميں نے اس پر اپنے دو دوستوں كو گواہ بھى بنايا، اور اپنى بيوى كو بھى اس كے بارہ ميں بتا ديا تھا، ليكن سسرال والوں كو نہيں بتايا كيونكہ ميرے اور ان كے آپس ميں اخلافات تھے.
جب ميرے گھر والوں كو بيوى سے رجوع كا علم ہوا تو وہ مجھ سے ناراض ہوئے، ليكن ميں نے اپنى بيوى سے صبر كرنے كو كہا، اس طرح خفيہ طور پر رجوع كا سلسلہ جارى رہے حتى كہ ميں اپنے گھر والوں سے عليحدہ ہو جاؤں.
ايك سال تك ميں بيوى سے چورى چھپے ملتا رہا اور ہمارے ازدواجى تعلقات بھى قائم ہوتے رہے، اللہ تعالى نے مجھ پر انعام كيا تو ميں اپنى تعليم مكمل كرنے كے ليے باہر كے ملك جانے لگا لہذا سفر سے دس دن قبل ميں نے بيوى كو ٹيلى فون كيا اور اسے بتايا كہ اللہ نے ہمارى مشكل كا حل نكال ديا ہے ميں نے اسے ايك يا دو ماہ انتظار كرنے كا كہا كہ اسے بتاؤں گا كہ اللہ نے كيا حل نكالا ہے، اور ميں تعليم كے ليے دوسرے ملك چلا گيا ليكن جانے كى اسے خبر نہ دى.
جانے كے ايك ہفتہ بعد مجھے ميرے گھر والوں نے اچانك خبر دى كہ ميرى مطلقہ ( جيسا كہ وہ خيال كرتے تھے ) نے شادى كر لى ہے! مجھے بہت صدمہ پہنچا اب مجھے پتہ نہيں چل رہا كہ ميں يہاں دوسر رہتے ہوئے كيا كروں، اور ميں اس كى تصديق بھى نہيں كر پا رہا تھا.
چنانچہ ميں نے بيوى سے رابطہ كرنے كى كوشش كى اور جب رابطہ ہوا تو اس نے بتايا كہ ميرا خيال تھا كہ تھا كہ تم مجھے يہ سارا عرصہ دھوكہ ديتے رہے ہو، جب اسے علم ہوا كہ ميں پانچ برس سے پہلے واپس نہيں آ سكتا تو اسے دھوكہ كا يقين ہو گيا.
وہ يہ دعوى كرتى ہے كہ اس نے ريڈيو پر ايك عالم دين سے دريافت كيا كہ كيا نيت كے بغير بيوى سے رجوع ہو گا يا نہيں تو اس نے رجوع ميں نيت كے واجب ہونے كا فتوى ديا، چنانچہ ميں نے دريافت كرنے كے بعد بيوى كو بتايا كہ ميرا حق ہے كہ ميں عدالت ميں عليحدگى كا مقدمہ دائر كروں، يا پھر اسے طلاق دے دوں، اور انہيں بھى بتا دوں تا كہ طلاق كى عدت پورى كريں.
يہ علم ميں رہے كہ سسرال والوں نے مجھ سے طلاق كا اسٹام ليے بغير ہى اس كى شادى كر دى ہے، يہى وہ چيز تھى جس پر ميں اعتماد كرتا تھا كہ جب وہ مجھ سے طلاق كا اسٹام طلب كريں تو ميں انہيں بتاؤں، برائے مہربانى مجھے اس كا كوئى حل بتائيں كيا اس كا حل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ابليس كے لشكر كو سب سے زيادہ پسند عمل خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرانا ہے، شيطان خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرا كر ابليس كے قرب كا شرف حاصل كرنے كے ليے ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش ميں رہتے ہيں، كيونكہ ايسا كرنے والا شيطان ابليس كے ہاں بہت مقام و مرتبہ اور شرف والا شمار ہوتا ہے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابليس اپنا تخت پانى پر لگا كر اپنا لاؤ لشكر روانہ كرتا ہے، ابليس كے سب سے قريب اور شرف والا وہ شيطان ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ باز ہو، ايك شيطان آ كر كہتا ہے ميں نے ايسے ايسے كيا، تو ابليس اسے كہتا ہے تم نے تو كچھ بھى نہيں كيا، پھر ايك اور شيطان آ كر كہتا ہے: ميں نے اسے اس وقت تك نہيں چھوڑا جب تك كہ اس كى بيوى اور اس كے مابين عليحدگى نہيں كرا دى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: چنانچہ ابليس اسے اپنے قريب كرتا اور اپنے ساتھ چمٹا كر كہتا ہے ہاں تو نے كام كيا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2813 ).

آج ہم جو كچھ سن رہے اور پڑھ رہے كہ خاوند نے يہ كيا اور وہ كيا يہ سب شيطانوں كا اپنى مہم ميں كامياب ہونے كى دليل ہے، چنانچہ اسلامى ممالك ميں طلاق كى نسبت ہولناك حد تك زيادہ ہو چكى ہے، اور اگر آپ اس كے اسباب تلاش كرنے لگيں تو آپ كو محسوس ہوگا كہ يہ سب كچھ اس دنيا كى بنا پر ہے اور دين كے سبب سے يہ طلاق بہت ہى كم ہو رہى ہے ليكن دنيا كے باعث طلاق بہت زيادہ ہے.

چنانچہ خاوند جلد بازى سے كام ليتے ہوئے غصہ ميں آ كر بيوى كو طلاق دے ڈالتا ہے، اور پھر اس كے نتيجہ ميں خاندان كا شيرازہ بكھر كر رہ جاتا ہے، اور اولاد كى تباہى سامنے آتى ہے.

ہو سكتا ہے يہ سطور پڑھنے والا شخص طلاق كے مسئلہ ميں كچھ غور كرے اور طلاق دينے سے قبل كچھ سوچ لے، اور اپنے خاندان اور گھر كو بنا كر ركھنے كى حرص كرے، اور انہيں سعادت و راحت دے كر طلاق سے اجتناب كر لے، تا كہ اسے اور اہل خانہ كو شقاوت و بدبختى نہ آ لے.

دوم:

عمومى طور پر يہ ہے كہ طلاق كے اكثر مسائل ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور بہت سارے طلاق كے مسائل ايسے ہيں جنہيں خاوند طلاق دينے سے قبل جانتا تك نہيں، اس ليے اسے خاوند كو اس پر عمل كرنا چاہيے جس كا وہ علم ركھتا ہے، اور جس سے وہ جاہل ہے اس پر بھى وہ عمل كر گزرتا ہے.

كيونكہ اگر وہ كسى ايسے عالم دين سے دريافت كرے جس كے دين اور علم پر اسے بھروسہ اور وہ اسے ثقہ سمجھتا ہو اور اس عالم دين نے اسے كوئى فتوى ديا تو پھر اسے اس پر عمل كرنا ضرورى ہے، اور اس كے ليے يہ حلال نہيں كہ وہ كسى دوسرے فتوى كے حصول كے ليے كسى دوسرے عالم دين كا رخ كرے، اور نہ ہى اسے اس فتوى كے اثر ميں شك كرنا چاہيے، كيونكہ اس نے تو اس پر عمل كيا ہے جو اللہ نے حكم ديا تھا كہ اہل علم سے دريافت كر لو، اور اس پر حكم كى تعميل واجب كى تھى.

اور خاص كر جب يہ حكم كسى شرعى قاضى كى جانب سے صادر ہوا ہو، تو پھر قضاء كے فيصلہ سے اختلافى مسائل كا حل نكل آتا ہے، اور ثقہ عالم دين كے جواب پر سائل كو عمل كرنا لازم ہے.

سوم:

اس عالم دين نے آپ كو جو كہا ہے كہ مطلقہ عورت پر طلاق واقع نہيں ہوتى، يہ قول اہل علم كى ايك جماعت نےاختيار كيا ہے جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور معاصر علماء ميں شيخ ابن عثيمين اور شيخ ابن باز رحمہم اللہ شامل ہيں.

چہارم:

اور عالم دين نے جو آپ كو يہ كہا ہے كہ آپ كا اپنى بيوى سے جماع كرنا رجوع كہلاتا ہے يہ احناف اور حنابلہ كا مسلك ہے اس قول كو لينے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ آپ نے وہى كام كيا ہے جس كا آپ كو حكم تھا كہ اہل علم سے سوال كريں، يہ مسئلہ اجتھادى مسائل ميں سے ہے جس ميں علماء كا اختلاف پايا جاتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خرقى كى كلام كا ظاہر تو يہى ہے كہ قول كے علاوہ كسى چيز سے رجوع حاصل نہيں ہوتا، امام شافعى كا مسلك يہى ہے اور امام احمد كى بھى ايك روايت ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: وطئ و جماع سے بھى رجوع ہو جاتا ہے، چاہے اس ميں رجوع كى نيت نہ بھى ہو، اسے ابن حامد اور قاضى نے اختيار كيا ہے، اور سعيد بن مسيب اور حسن اور ابن سيرين، عطاء، طاؤس، زھرى، ثورى، اوزاعى، اور ابن ابى ليلى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 482 ).

ہمارى رائے ميں تو آپ كا اپنى بيوى كو اپنے رجوع كے بارہ ميں فتوى كے متعلق بتانا، اور رجوع كرنے پر دو گواہ بنانا يہ جماع كے علاوہ بھى رجوع پر دلالت كرتا ہے كيونكہ آپ كا بيوى كو بتانا اور گواہ بنانا يہ رجوع كرنے كى صراحت ہے.

بہر حال آپ نے فتوى ليا اور آپ كو رجوع كا فتوى ديا گيا اور آپ نے بيوى كو اس فتوى كے بارہ ميں بتا بھى ديا اور پھر آپ كا رجوع پر دو گواہ بنانا يہ مستقل طور پر رجوع كرنے كى تقويت كا باعث ہے.

اس بنا پر آپ كى بيوى نے جو دعوى كيا ہے كہ اس نے كسى عالم دين سے دريافت كيا اور اس نے اسے عدم رجوع كا فتوى ديا ہے كيونكہ بغير نيت كے جماع كرنا رجوع نہيں كہلاتا يہ دعوى معتبر نہيں كيونكہ آپ نے فتوى حاصل كيا اور پھر بيوى كو بھى اس فتوى كے بارہ ميں بتا ديا اور رجوع پر دو گواہ بھى بنائے، اس طرح رجوع كى صورت مكمل ہو جاتى ہے اور بيوى كو اس كى مخالفت كرنے كى كوئى راہ نہيں ملتى.

پنجم:

آپ كا رجوع كے متعلق اپنے گھر والوں كو يا پھر سسرال والوں كو رجوع كے متعلق بتانا رجوع كے ليے شرط نہيں، بلكہ بيوى كو بھى رجوع كے بارہ ميں بتانا رجوع ميں شرط نہيں ہے، كيونكہ بيوى كے دور ہوتے ہوئے رجعى طلاق والى بيوى سے بھى اكيلا خاوند رجوع كر سكتا ہے، اس ميں نہ تو بيوى كى رضامندى كى شرط ہے اور نہ ہى بيوى كو بتانے كى شرط ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہ

اور ان كے خاوند انہيں واپس لانے كے زيادہ حقدار ہيں اگر وہ اصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں البقرۃ ( 228 ).

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء كرام كا اجماع ہے كہ جب آزاد شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور بيوى سے دخول ہو چكا ہو ايك يا دو طلاق ہوں تو خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا زيادہ حق ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ عدت ختم نہ ہوئى ہو، اگرچہ بيوى ناپسند بھى كرے.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 3 / 120 ).

آپ كے ليے بہتر تھا كہ آپ اپنے سسرال والوں كو خبر ديتے كہ آپ نے اپنى بيوى سے رجوع كر ليا ہے، اور انہيں نہ بتانے ميں بہت بڑى خرابى اور قباحت پيدا ہونے كا خدشہ ہے وہ يہ كہ وہ يہ خيال كرتے ہوئے اپنى بچى كى شادى كسى دوسرے مرد سے كر ديں كہ آپ نے اسے طلاق دے دى ہے اور پھر آپ اس كے پاس بھى نہيں اس ليے ان كى طلاق يافتہ بچى كو نكاح كى اجازت ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو رجوع پر گواہ بنانے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور تم اپنے ميں سے دو عادل گواہ بنا لو الطلاق ( 2 ).

تا كہ جھگڑا اور نزاع پيدا نہ ہو اور اگر كوئى بھول جائے تو اسے ياد دلايا جا سكے، اور غافل كو طلاق كى تعداد پر متنبہ كيا جا سكے.

فقھاء كرام نے رجوع پر گواہ نہ بنانے كے مسئلہ ميں اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے كہ ہو سكتا ہے رجوع ميں اخلاف پيدا ہو جائے اور جھگڑا كھڑا ہو جائے كہ اس نے تو رجوع كيا ہى نہيں اور اسى دعوى كى بنا پر وہ كسى دوسرے مرد سے شادى كر لے لہذا اگر گواہ ہوں گے تو ايسا نہيں ہو سكےگا.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہيں:

" جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ بيوى كو رجوع كے بارہ ميں بتانا مستحب ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں خاوند اور بيوى ميں پيدا ہونے والے نزاع كا خاتمہ ہے.

عينى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" عورت كو رجوع كے بارہ ميں بتانا مستحب ہے، يعنى عورت كو رجوع كا بتايا جائے، ہو سكتا ہے وہ يہ خيال كرتے ہوئے كہ خاوند نے رجوع نہيں كيا اور اس كى عدت بھى گزر گئى ہے تو وہ كسى اور سے شادى كر لے، اور خاوند اس سے وطئ بھى كر لے، تو اس طرح وہ عورت خاوند سے رجوع كے متعلق دريافت نہ كرنے اور خاوند اسے رجوع كے بارہ ميں نہ بتا كر گنہگار ہوگا.

ليكن اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ اگر بيوى كو رجوع كے بارہ ميں علم نہ بھى ہو تو رجوع صحيح ہے، كيونكہ يہ تو قائم شدہ نكاح كو برقرار ركھنا ہے، نہ كہ نيا نكاح كرنا، اس ليے خاوند اپنے خالص حق ميں تصرف كا حق ركھتا ہے، اور جب انسان اپنے كسى خالص حق ميں تصرف كرنا چاہے تو اسے دوسرے كو بتانا اور علم ميں لانا ضرورى نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 114 ).

اب آپ كو چاہيے كہ اپنا مقدمہ شرعى عدالت ميں لے جائيں اور اس عالم دين كا لكھا ہوا فتوى بھى پيش كريں، اور اپنے ساتھ رجوع پر بنائے گئے دو گواہ بھى پيش كريں تا كہ آپ كا اپنى بيوى سے رجوع ثابت ہو سكے اور بيوى آپ كى عصمت ميں آ جائے.

اور اگر شرعى عدالت ميں جائے بغير آپ ان سب كو يہ معاملہ سمجھا سكتے ہوں تو يہ بہتر ہے.

ہم يہاں آپ كو يہ بھى بتاتے چليں كہ اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع نہ بھى كرنا چاہتے ہوں تو بھى آپ كو اس مسئلہ پر خاموشى اختيار نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ معاملہ كو صحيح كرنے كے بعد آپ اگر چاہيں تو بيوى كو طلاق دے سكتے ہيں ليكن يہ جان ليں كہ آپ كى خاموشى دوسرا غير شرعى نكاح باقى ركھنے كا باعث بن سكتا ہے، اور يہ بہت ہى قبيح چيز ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنى رضامندى والے اعمال كرنے كى توفيق دے، اور آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب