الحمد للہ.
اول:
ابليس كے لشكر كو سب سے زيادہ پسند عمل خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرانا ہے، شيطان خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرا كر ابليس كے قرب كا شرف حاصل كرنے كے ليے ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش ميں رہتے ہيں، كيونكہ ايسا كرنے والا شيطان ابليس كے ہاں بہت مقام و مرتبہ اور شرف والا شمار ہوتا ہے.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ابليس اپنا تخت پانى پر لگا كر اپنا لاؤ لشكر روانہ كرتا ہے، ابليس كے سب سے قريب اور شرف والا وہ شيطان ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ باز ہو، ايك شيطان آ كر كہتا ہے ميں نے ايسے ايسے كيا، تو ابليس اسے كہتا ہے تم نے تو كچھ بھى نہيں كيا، پھر ايك اور شيطان آ كر كہتا ہے: ميں نے اسے اس وقت تك نہيں چھوڑا جب تك كہ اس كى بيوى اور اس كے مابين عليحدگى نہيں كرا دى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: چنانچہ ابليس اسے اپنے قريب كرتا اور اپنے ساتھ چمٹا كر كہتا ہے ہاں تو نے كام كيا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2813 ).
آج ہم جو كچھ سن رہے اور پڑھ رہے كہ خاوند نے يہ كيا اور وہ كيا يہ سب شيطانوں كا اپنى مہم ميں كامياب ہونے كى دليل ہے، چنانچہ اسلامى ممالك ميں طلاق كى نسبت ہولناك حد تك زيادہ ہو چكى ہے، اور اگر آپ اس كے اسباب تلاش كرنے لگيں تو آپ كو محسوس ہوگا كہ يہ سب كچھ اس دنيا كى بنا پر ہے اور دين كے سبب سے يہ طلاق بہت ہى كم ہو رہى ہے ليكن دنيا كے باعث طلاق بہت زيادہ ہے.
چنانچہ خاوند جلد بازى سے كام ليتے ہوئے غصہ ميں آ كر بيوى كو طلاق دے ڈالتا ہے، اور پھر اس كے نتيجہ ميں خاندان كا شيرازہ بكھر كر رہ جاتا ہے، اور اولاد كى تباہى سامنے آتى ہے.
ہو سكتا ہے يہ سطور پڑھنے والا شخص طلاق كے مسئلہ ميں كچھ غور كرے اور طلاق دينے سے قبل كچھ سوچ لے، اور اپنے خاندان اور گھر كو بنا كر ركھنے كى حرص كرے، اور انہيں سعادت و راحت دے كر طلاق سے اجتناب كر لے، تا كہ اسے اور اہل خانہ كو شقاوت و بدبختى نہ آ لے.
دوم:
عمومى طور پر يہ ہے كہ طلاق كے اكثر مسائل ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور بہت سارے طلاق كے مسائل ايسے ہيں جنہيں خاوند طلاق دينے سے قبل جانتا تك نہيں، اس ليے اسے خاوند كو اس پر عمل كرنا چاہيے جس كا وہ علم ركھتا ہے، اور جس سے وہ جاہل ہے اس پر بھى وہ عمل كر گزرتا ہے.
كيونكہ اگر وہ كسى ايسے عالم دين سے دريافت كرے جس كے دين اور علم پر اسے بھروسہ اور وہ اسے ثقہ سمجھتا ہو اور اس عالم دين نے اسے كوئى فتوى ديا تو پھر اسے اس پر عمل كرنا ضرورى ہے، اور اس كے ليے يہ حلال نہيں كہ وہ كسى دوسرے فتوى كے حصول كے ليے كسى دوسرے عالم دين كا رخ كرے، اور نہ ہى اسے اس فتوى كے اثر ميں شك كرنا چاہيے، كيونكہ اس نے تو اس پر عمل كيا ہے جو اللہ نے حكم ديا تھا كہ اہل علم سے دريافت كر لو، اور اس پر حكم كى تعميل واجب كى تھى.
اور خاص كر جب يہ حكم كسى شرعى قاضى كى جانب سے صادر ہوا ہو، تو پھر قضاء كے فيصلہ سے اختلافى مسائل كا حل نكل آتا ہے، اور ثقہ عالم دين كے جواب پر سائل كو عمل كرنا لازم ہے.
سوم:
اس عالم دين نے آپ كو جو كہا ہے كہ مطلقہ عورت پر طلاق واقع نہيں ہوتى، يہ قول اہل علم كى ايك جماعت نےاختيار كيا ہے جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور معاصر علماء ميں شيخ ابن عثيمين اور شيخ ابن باز رحمہم اللہ شامل ہيں.
چہارم:
اور عالم دين نے جو آپ كو يہ كہا ہے كہ آپ كا اپنى بيوى سے جماع كرنا رجوع كہلاتا ہے يہ احناف اور حنابلہ كا مسلك ہے اس قول كو لينے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ آپ نے وہى كام كيا ہے جس كا آپ كو حكم تھا كہ اہل علم سے سوال كريں، يہ مسئلہ اجتھادى مسائل ميں سے ہے جس ميں علماء كا اختلاف پايا جاتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خرقى كى كلام كا ظاہر تو يہى ہے كہ قول كے علاوہ كسى چيز سے رجوع حاصل نہيں ہوتا، امام شافعى كا مسلك يہى ہے اور امام احمد كى بھى ايك روايت ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: وطئ و جماع سے بھى رجوع ہو جاتا ہے، چاہے اس ميں رجوع كى نيت نہ بھى ہو، اسے ابن حامد اور قاضى نے اختيار كيا ہے، اور سعيد بن مسيب اور حسن اور ابن سيرين، عطاء، طاؤس، زھرى، ثورى، اوزاعى، اور ابن ابى ليلى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 482 ).
ہمارى رائے ميں تو آپ كا اپنى بيوى كو اپنے رجوع كے بارہ ميں فتوى كے متعلق بتانا، اور رجوع كرنے پر دو گواہ بنانا يہ جماع كے علاوہ بھى رجوع پر دلالت كرتا ہے كيونكہ آپ كا بيوى كو بتانا اور گواہ بنانا يہ رجوع كرنے كى صراحت ہے.
بہر حال آپ نے فتوى ليا اور آپ كو رجوع كا فتوى ديا گيا اور آپ نے بيوى كو اس فتوى كے بارہ ميں بتا بھى ديا اور پھر آپ كا رجوع پر دو گواہ بنانا يہ مستقل طور پر رجوع كرنے كى تقويت كا باعث ہے.
اس بنا پر آپ كى بيوى نے جو دعوى كيا ہے كہ اس نے كسى عالم دين سے دريافت كيا اور اس نے اسے عدم رجوع كا فتوى ديا ہے كيونكہ بغير نيت كے جماع كرنا رجوع نہيں كہلاتا يہ دعوى معتبر نہيں كيونكہ آپ نے فتوى حاصل كيا اور پھر بيوى كو بھى اس فتوى كے بارہ ميں بتا ديا اور رجوع پر دو گواہ بھى بنائے، اس طرح رجوع كى صورت مكمل ہو جاتى ہے اور بيوى كو اس كى مخالفت كرنے كى كوئى راہ نہيں ملتى.
پنجم:
آپ كا رجوع كے متعلق اپنے گھر والوں كو يا پھر سسرال والوں كو رجوع كے متعلق بتانا رجوع كے ليے شرط نہيں، بلكہ بيوى كو بھى رجوع كے بارہ ميں بتانا رجوع ميں شرط نہيں ہے، كيونكہ بيوى كے دور ہوتے ہوئے رجعى طلاق والى بيوى سے بھى اكيلا خاوند رجوع كر سكتا ہے، اس ميں نہ تو بيوى كى رضامندى كى شرط ہے اور نہ ہى بيوى كو بتانے كى شرط ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہ
اور ان كے خاوند انہيں واپس لانے كے زيادہ حقدار ہيں اگر وہ اصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں البقرۃ ( 228 ).
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كا اجماع ہے كہ جب آزاد شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور بيوى سے دخول ہو چكا ہو ايك يا دو طلاق ہوں تو خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا زيادہ حق ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ عدت ختم نہ ہوئى ہو، اگرچہ بيوى ناپسند بھى كرے.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 3 / 120 ).
آپ كے ليے بہتر تھا كہ آپ اپنے سسرال والوں كو خبر ديتے كہ آپ نے اپنى بيوى سے رجوع كر ليا ہے، اور انہيں نہ بتانے ميں بہت بڑى خرابى اور قباحت پيدا ہونے كا خدشہ ہے وہ يہ كہ وہ يہ خيال كرتے ہوئے اپنى بچى كى شادى كسى دوسرے مرد سے كر ديں كہ آپ نے اسے طلاق دے دى ہے اور پھر آپ اس كے پاس بھى نہيں اس ليے ان كى طلاق يافتہ بچى كو نكاح كى اجازت ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو رجوع پر گواہ بنانے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور تم اپنے ميں سے دو عادل گواہ بنا لو الطلاق ( 2 ).
تا كہ جھگڑا اور نزاع پيدا نہ ہو اور اگر كوئى بھول جائے تو اسے ياد دلايا جا سكے، اور غافل كو طلاق كى تعداد پر متنبہ كيا جا سكے.
فقھاء كرام نے رجوع پر گواہ نہ بنانے كے مسئلہ ميں اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے كہ ہو سكتا ہے رجوع ميں اخلاف پيدا ہو جائے اور جھگڑا كھڑا ہو جائے كہ اس نے تو رجوع كيا ہى نہيں اور اسى دعوى كى بنا پر وہ كسى دوسرے مرد سے شادى كر لے لہذا اگر گواہ ہوں گے تو ايسا نہيں ہو سكےگا.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہيں:
" جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ بيوى كو رجوع كے بارہ ميں بتانا مستحب ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں خاوند اور بيوى ميں پيدا ہونے والے نزاع كا خاتمہ ہے.
عينى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" عورت كو رجوع كے بارہ ميں بتانا مستحب ہے، يعنى عورت كو رجوع كا بتايا جائے، ہو سكتا ہے وہ يہ خيال كرتے ہوئے كہ خاوند نے رجوع نہيں كيا اور اس كى عدت بھى گزر گئى ہے تو وہ كسى اور سے شادى كر لے، اور خاوند اس سے وطئ بھى كر لے، تو اس طرح وہ عورت خاوند سے رجوع كے متعلق دريافت نہ كرنے اور خاوند اسے رجوع كے بارہ ميں نہ بتا كر گنہگار ہوگا.
ليكن اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ اگر بيوى كو رجوع كے بارہ ميں علم نہ بھى ہو تو رجوع صحيح ہے، كيونكہ يہ تو قائم شدہ نكاح كو برقرار ركھنا ہے، نہ كہ نيا نكاح كرنا، اس ليے خاوند اپنے خالص حق ميں تصرف كا حق ركھتا ہے، اور جب انسان اپنے كسى خالص حق ميں تصرف كرنا چاہے تو اسے دوسرے كو بتانا اور علم ميں لانا ضرورى نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 114 ).
اب آپ كو چاہيے كہ اپنا مقدمہ شرعى عدالت ميں لے جائيں اور اس عالم دين كا لكھا ہوا فتوى بھى پيش كريں، اور اپنے ساتھ رجوع پر بنائے گئے دو گواہ بھى پيش كريں تا كہ آپ كا اپنى بيوى سے رجوع ثابت ہو سكے اور بيوى آپ كى عصمت ميں آ جائے.
اور اگر شرعى عدالت ميں جائے بغير آپ ان سب كو يہ معاملہ سمجھا سكتے ہوں تو يہ بہتر ہے.
ہم يہاں آپ كو يہ بھى بتاتے چليں كہ اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع نہ بھى كرنا چاہتے ہوں تو بھى آپ كو اس مسئلہ پر خاموشى اختيار نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ معاملہ كو صحيح كرنے كے بعد آپ اگر چاہيں تو بيوى كو طلاق دے سكتے ہيں ليكن يہ جان ليں كہ آپ كى خاموشى دوسرا غير شرعى نكاح باقى ركھنے كا باعث بن سكتا ہے، اور يہ بہت ہى قبيح چيز ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنى رضامندى والے اعمال كرنے كى توفيق دے، اور آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے.
واللہ اعلم .