جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایک خاتون عمرہ کرنے کے بعد بال کٹوانا بھول گئی اور خاوند نے اسکے ساتھ ہمبستری بھی کر لی۔

سوال

میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے اپنی بیوی کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا، گھر واپس آنے کے بعد ہم نے ہمبستری بھی کی، اسکے بعد میری بیوی کو یاد آیا کہ وہ ابھی تک حلال نہیں ہوئی تھی، اب ہمارے لئے کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کے واجبات میں سے ہیں، اور جو بھول جائے اسے یاد آنے پر اسی وقت بال کٹوانے یا منڈوانے ہونگے، چنانچہ اگر بال کٹوانے سے پہلے لاعلمی یا بھولے سے کسی ممنوع کام کا ارتکاب کرلیا تو اس پر کچھ نہیں ہے، اہل علم کا راجح قول یہی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایسی خاتوں کے بارے میں کہتے ہیں جس نے عمرہ مکمل نہیں کیا: "اور اگر کوئی ممنوع کام کا ارتکاب کر لے، جیسے فرض کریں کہ خاوند نے اسکے ساتھ ہمبستری کر لی - جماع احرام کی حالت میں کرنا بہت سنگین جرم ہے- تو اس پر کچھ نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ اس خاتون کو علم نہیں تھا، چنانچہ جو کوئی بھی انسان احرام کے ممنوع کام لاعلمی، بھول چوک، ہو کر کرے یا اسے سے زبردستی کروایا جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے" انتہی

"مجموع فتاوی ابن عثیمین" (21/351) مختصراً

جبکہ بعض اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ سعی کے بعد اور حلق یا تقصیر سے قبل جماع کرنے کی صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، چاہے بھول چوک سے کیا ہو یا لاعلمی کی بنا پر، اور اس فدیہ میں انہیں اختیار بھی ہوگا جیسے "فدیۃ الاذی" میں ہوتا ہے؛ یعنی جس نے سر میں جوؤں یا کسی اور وجہ سے بال منڈوا دئیےتو اسے فدیہ دینا ہوگا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ) البقرة/196

ترجمہ: جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (تو سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کر دے۔

اس لئے وہ شخص تین دن کے روزے رکھ لے، یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دے، ہر مسکین کو آدھا صاع گندم وغیرہ دے دے، یا پھر ایک بکری ذبح کردے جو مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔

مزید دیکھیں: "شرح منتهى الإرادات" (1/556)

اگر آپ کی زوجہ احتیاطاً اس قول پر عمل کرے تو اچھا ہے، اس لئے تین دن کے روزے رکھ لے یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دے، یا ایک بکری ذبح کردے جو فقراء مکہ میں تقسیم کردی جائے۔

وا للہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب