الحمد للہ.
ملازم كے ہاتھ ميں جو آلات اور مال بھى بطور ادارہ كى جانب سے امانت ہو اسے اس كى حفاظت كرنى چاہيے، اور اسے مخصوص كردہ كام كے ليے علاوہ كہيں اور صرف اور استعمال كرنا جائز نہيں.
اس پانى كى گورنمنٹ نے قيمت اس ليے ادا كى ہے كہ اس سے زراعت كى جائے، تو اس كے علاوہ كوئى اور اس پانى كا استعمال سركارى مال كو ناحق كھانے كے مترادف ہوگا.
اس بنا پر آپ كے يہ فعل حلال نہيں، اور اس سے فورى طور پر ركنا واجب ہے، اور اس سے قبل گاڑياں دھونے ميں استعمال ہونے والے پانى كى قيمت اس محكمہ كو دينا ہوگى جہاں آپ ملازمت كرتے ہيں، اگر ايسا نہ ہو سكے تو آپ اس رقم كے ساتھ پانى خريد كر فصل كو سيراب كر ديں، اور اگر يہ بھى نہ ہو سكے تو آپ اس رقم كو عام مسلمانوں كى مصلحت كے ليے صدقہ كر ديں، مثلا مسجد تعمير كر ديں، يا پھر ہاسپٹل كى تعمير ميں حصہ ڈال ديں، يا پھر سڑك وغيرہ تعمير كروا ديں.
اور آپ لوگوں نے گاڑياں دھلانے كے ليے جو رقم ملازموں كى دى ہے وہ پانى كى اس قيمت سے كاٹى نہيں جائيگى جس كى آپ نے محمكہ كو ادائيگى كرنى ہے؛ كيونكہ ان ملازمين نے تو يہ رقم اپنے كام كے عوض ميں لى ہے، چاہے ان كے ليے يہ كام جائز نہ تھا.
ذيل ميں ملازمت كى اشياء ذاتى استعمال كرنے كے متعلق ہم چند ايك فتاوى جات پيش كرتى ہيں:
1 - مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
سركارى گاڑياں جو محكمہ كے ليے مخصوص ہيں وہ ذاتى غرض كے استعمال ميں كرنا جائز نہيں، بلكہ جس سركارى كام كے ليے وہ مخصوص ہيں ان كا استعمال بھى اس كے ليے ہوگا؛ كيونكہ ان كا كسى مخصوص كام كى بجائے كسى اور كام ميں استعمال كرنا ناحق استعمال ہے"
الشيخ عبدالعزيز بن باز.
الشيخ عبدالعزيز آل الشيخ.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 432 ).
2 - شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
سركارى دفتر كى بعض چھوٹى موٹى اشياء مثلا پين، لفافہ، پيمانہ وغيرہ ملازم كو ذاتى اغراض كے ليے استعمال كرنے كا حكم كيا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" آفس ميں موجود سركارى اشياء كو ذاتى اغراض كے استعمال كرنا حرام ہے؛ كيونكہ يہ اس امانت كے خلاف ہے جس كى حفاظت اللہ تعالى نے اس كے ذمہ واجب كى ہے، ليكن وہ چيز استعمال ہو سكتى ہے جس ميں ضرر نہ ہو، مثلا پيمانہ استعمال كرنا، كيونكہ اس كا استعمال نہ تو اثرانداز ہوتا ہے اور نہ ہى نقصان، ليكن سركارى قلم، اور كاغذات، اور فوٹو سٹيٹ مشين كا اپنى ذاتى اغرض كے ليے استعمال كرنا جائز نہيں ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 306 ).
3 - اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ڈيوٹى كے دوران يا ڈيوٹى كے بعد سركارى گاڑياں اپنے ذاتى كام كے ليے استعمال كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ گاڑياں حكومت كى ملكيت ہيں اور صرف سركارى كام كرنے كے ليے مختص ہيں، اس ليے كسى شخص كے ليے بھى انہيں ذاتى كام كے ليے استعمال كرنا جائز نہيں.
اور مشكل يہ ہے كہ بعض لوگ سركارى مال ميں يہ كہہ كر سستى كا مظاہرہ كرتے ہيں كہ بيت المال ميں اس كا بھى حق ہے.
ہم اسے كہتے ہيں كہ: اگر آپ كا بيت المال ميں حق ہے تو پھر ہر شخص كا بيت المال ميں حق ہے، اس ليے آپ اسے اپنے ليے كيوں مخصوص كر كے اپنے ذاتى كام كے ليے كيوں استعمال كرتے ہيں ؟ كيا اگر كوئى اور شخص آ جائے جو اس سے بھى زيادہ حق ركھتا ہو، اور وہ يہ گاڑى اپنے ذاتى كام كے ليے استعمال كرنا چاہے تو كيا اسے منع نہيں كر ديا جائيگا ؟ تو اسى طرح يہ شخص بھى اسے ذاتى استعمال سے روكا جائيگا، اور اگر انسان كو گاڑى كى ضرورت ہے تو وہ اپنے ذاتى مال سے خريد لے " انتہى.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 9 ) سوال نمبر ( 3 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 47067 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .