الحمد للہ.
جى ہاں نماز صحيح ہے، ليكن اولى اورافضل و بہتر يہ ہے كہ آپ ميں سے جو كتاب اللہ كا زيادہ حافظ اور دينى علم زيادہ ركھتا ہو وہ امامت كروائے، يہى بہتر اور افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قوم كى امامت وہ كروائے جو كتاب اللہ كا زيادہ حافظ و قارى ہو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 673 ).
اقراء كا معنى يہ ہے كہ قرآن مجيد كو زيادہ پڑھنے والا اور اس كے معانى پر عمل پيرا ہو، اگر وہ قارى ہے قرآن مجيد پڑھتا تو ہے ليكن اس پر عمل نہيں كرتا تو اس ميں كوئى خير نہيں.
ليكن اگر كوئى شخص كچھ لوگوں كى امامت كروائے اور ان ميں اس شخص سے زيادہ قارى اور حافظ بھى ہو تو ايسا نہيں ہونا چاہيے، اس كا ذكر حديث ميں بھى ہوا ہے.
امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب: " رسالۃ السنيۃ " ميں لكھا ہے:
" جس شخص نے قوم كى امامت كروائى اور ان لوگوں ميں اس سے بہتر شخص بھى ہو تو ہميشہ انحطاط اور نيچے كى طرف ہى جائيں گے"
چنانچہ اولى اور بہتر يہى ہے كہ آپ كى امامت وہ شخص كروائے جو تم سب ميں زيادہ متقى اور پرہيزگار اور دين كو سمجھنے والا اور كتاب اللہ كا علم ركھنے والا ہو، ليكن فرض كريں اگر يہ سگرٹ نوش يا جس نے داڑھى منڈا ركھى ہے يا وہ شخص جو حقہ پيتا ہے، وہ جس نے لمبے لمبے بال ركھے ہوئے ہيں وہ آگے بڑھ كر نماز پڑھائے تو ہم يہ كہينگے كہ: نماز صحيح ہے، اسے لوٹانے كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ وہ مسلمان ہے، ليكن ناقص ہے.