جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا خاوند بيوى كو چہرہ ننگا ركھنے كى اجازت دے سكتا ہے

9611

تاریخ اشاعت : 25-11-2007

مشاہدات : 6061

سوال

اس خاوند كے متعلق كيا حكم ہے جو بيوى كو ميك اپ كر كے ايسى چادر اوڑھ كر باہر جانے كى اجازت دے جس سے اس كے كان اور گردن بھى ظاہر ہوتى ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ جاننا ضرورى ہے كہ خاوند اپنى بيوى اور بچوں كا ذمہ دار ہے اور اس سے روز قيامت اس ذمہ دارى كے متعلق جوب دينا ہے.

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" تم ميں سے ہر ايك ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے متعلق سوال ہو گا، حكمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے متعلق باز پرس كى جائيگى، اور آدمى اپنے گھر كا ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں باز پرس ہو گى، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا اور خادم اپنے مالك كے مال كا ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں جواب دينا ہو گا، اور مرد اپنے والد كے مال كا ذمہ دار ہے اور اسے اپنى رعايا كے بارہ ميں جواب دينا ہو گا، اور تم سب ذمہ دار ہو اور اپنى رعايا كے بارہ ميں جوبدہ ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

چنانچہ خاوند سے اس كى بيوى اور بچوں كے بارہ ميں اللہ تعالى كے ہاں روز قيامت محاسبہ كيا جائيگا، اگر اس نے انہيں نصيحت كرنے اور ا نكى اچھى تربيت كرنے ميں كوئى كوتاہى كى تو اس كا جواب دينا ہو گا.

دوم:

علماء كرام بيان كرتے ہيں كہ زينت دو قسم كى ہے:

ظاہرى زينت:

يہ عورت كا خارجى لباس ہے.

باطنى زينت:

يہ وہ زينت ہے جو خاوند كے علاوہ كوئى اور نہيں ديكھ سكتا مثلا سرمہ كنگن اور انگوٹھى.

اس كى دليل ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى وہ تفسير ہے جو انہوں نے درج ذيل فرمان الہى كى بيان كى ہے:

اور وہ اپنى زينت كو ظاہر مت كريں، مگر جو ظاہر ہے النور ( 31 ).

ابن مسعود كہتے ہيں: زينت دو طرح كى ہے: ظاہرى زينت اور باطنى زينت.

باطنى زينت خاوند كےعلاوہ كوئى اور نہيں ديكھ سكتا.

اور ظاہرى زينت عورت كا لباس ہے، اور باطنى زينت سرمہ، كنگن اور انگوٹھى ہے.

اور ايك روايت ميں ہے:

" ظاہرى زينت كپڑے ہيں، اور جو مخفى ہے پازيب اور بالياں اور كنگن.

اسے ابن جرير نے تفسير ابن جرير ميں روايت كيا ہے.

ديكھيں: تفسير ابن جرير ( 18 / 117 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما جيسى ہى تفسير منقول ہے.

ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 196 ).

اس طرح علماء كرام نے عورت كے ليے اپنا چہرہ، ہاتھ اور باطنى زينت كو چھپانا واجب قرار ديا ہے، اكثر علماء كرام نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ شامل ہيں.

اور اس مسئلہ ميں شنقيطى رحمہ اللہ علماء كرام كے اقوال پيش كرنے اور ابن مسعود سے جو مروى ہے اسے راجح قرار دينے كےبعد كہتے ہيں:

" ہمارے نزديك سب اقوال سے يہى قول زيادہ ظاہر ہے، اور شك و شبہ اور فتنہ كے اسباب سے زيادہ دور ہے "

ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 192 ).

ميك اپ اور اسى طرح مہندى اس زينت ميں شامل ہوتى ہے جو عورت كے ليے غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے ظاہر كرنى جائز نہيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خوبصورتى كے ليے مہندى لگانے ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر شادى شدہ عورت مہندى وغيرہ لگا كر اپنے خاوند كے ليے زينت اختيار كر سكتى ہے، ليكن غير شادى شدہ عورت كے متعلق صحيح يہى ہے اس كےليے بھى مباح ہے، ليكن اسے وہ لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كر سكتى كيونكہ يہ زينت ميں شامل ہوتى ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 477 ).

ليكن بعض ڈاكٹروں كا كہنا ہے كہ ميك اپ كے ليے استعمال ہونے والى مصنوعى اشياء عورت كى جلد كے ليے نقصان اور ضرر كا باعث ہيں، اگر ايسا ثابت ہو جائے تو پھر اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر تو ميك اپ عورت كو خوبصورت كرے، اور اسے نقصان و ضرر نہ دے تو اسے استعمال كرنےميں كوئى حرج نہيں، ليكن ميں نے سنا ہے كہ ميك اپ چہرے كى جلد كو نقصان ديتا ہے، جس كے نتيجہ ميں چہرے كى جلد كا رنگ بدل كر بڑھاپے كى عمر سے قبل ہى بدصورت اور قبيح شكل اختيار كر ليتا ہے، عورتوں سے ميرى گزارش ہے كہ وہ اس كے متعلق ڈاكٹر حضرات سے دريافت كريں.

اگر تو يہ ثابت ہو جائے تو پھر ميك اپ يا تو حرام ہو گا يا پھر كم از كم مكروہ؛ كيونكہ ہر وہ چيز جو انسان كو بدصورت اور قبيح بنانے كا باعث ہو وہ يا تو حرام ہے يا پھر مكروہ "

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 474 ).

سوم:

عورت كا چادر سے اپنے كان اور گردن ظاہر كرنا اور باہر ركھنا حرام فعل ہے، كيونكہ كان اور گردن ان اشياء ميں شامل ہيں جن كے بارہ ميں عورت كو حكم ہے كہ وہ انہيں غيرمحرم اور اجنبى مردوں سے چھپا كر ركھے، اور يہ دونوں اس زينت ميں شامل ہوتے ہيں جنہيں خاوند اور غير محرم كے سامنے ننگا كرنا حرام ہے.

فقھاء اس پرمتفق ہيں كہ عورت كے كان پردہ ميں شامل ہيں، اور كسى غير محرم اور اجنبى مرد كے سامنے انہيں ظاہر كرنا جائز نہيں.

اور كانوں ميں جو بالياں وغيرہ پہنى جاتى ہيں وہ بھى باطنى زينت ميں شامل ہوتى ہے جس كا غير محرم مرد كے سامنے اظہار كرنا جائز نہيں.... "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 376 ).

آپ پردہ كى مزيد تفصيلى شروط ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 6991 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

جواب كا خلاصہ:

خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو باطنى زينت كسى كے سامنے ظاہر كرنے كى اجازت دے، بلكہ خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اچھى طرح پردہ كرنے كا حكم دے، وگرنہ اسے شريعت ان اشخاص ميں شامل كريگى جنہيں ديوث اور بےغيرت كہا جاتا ہے، اور وہ اپنى عزت پر غيرت ميں نہيں آتے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم كے لوگ جنت ميں نہيں جائينگے، اور نہ ہى اللہ تعالى روز قيامت انہيں ديكھےگا: اپنےوالدين كا نافرمان شخص، اور وہ عورت جو مرد بننے كى كوشش كرے اور مردوں سے مشابہت كرے، اور ديوث آدمى "

مسند احمد حديث نمبر ( 6180 ) احمد شاكر نے اس كى حديث كى سند كو صحيح كہا ہے.

اور اس كى بيوى كو بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے مكمل اور صحيح پردے كا التزام كرنا چاہيے، اللہ تعالى كے ہاں اس كے دين كے ليے اس كى بہتر اسى ميں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب