سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شراب نوشى كرنے والے كى نمازوں اور حج كى قبوليت كا مسئلہ

96702

تاریخ اشاعت : 31-08-2007

مشاہدات : 6568

سوال

ميں اپنے دوستوں كے ساتھ گيا اور ہم سب نے شراب نوشى بھى كى، اس برس ميرا حج كرنے كا ارادہ ہے، ميں نے سنا ہے كہ شراب نوشى كرنے والے كى چاليس يوم تك نمازيں قبول نہيں ہوتيں، تو كيا اگر ميں اس برس فريضہ حج كى ادائيگى كروں تو كيا اس قبيح فعل كى بنا پر ميرا يہ حج قبول ہو گا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شراب نوشى كرنا كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتى ہے، اور ايسا كرنے والے كے متعلق بہت سارى احاديث ميں سخت وعيد آئى ہے جو اس جرم كى بڑا ہونے كى دليل ہے، اور اس كى سزا بھى اللہ تعالى كے ہاں بہت سخت ہے، جس ميں چاليس يوم تك اس كى نمازوں كا قبول نہ ہونا بھى شامل ہے اس كى تفصيل سوال نمبر ( 20037 ) اور ( 38145 ) اور ( 27143 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ان سوالوں كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اور اہل علم كى ايك جماعت كہتى ہے كہ يہ معاملہ صرف نماز كے ساتھ ہى خاص نہيں، بلكہ اس كى دوسرى عبادات بھى قبول نہيں ہوتيں، اللہ تعالى ہميں امن و سلامتى ميں ركھے.

مباركپورى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " تحفۃ الاحوذى " ميں كہتے ہيں:

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: نماز كا ذكر خاص طور پر اس ليے كيا گيا ہے كہ يہ بدنى عبادات ميں سب سے افضل ہے، تو جب نماز ہى قبول نہيں ہوتى تو پھر باقى عبادات تو بالاولى قبول نہيں ہونگى " اھـ

ماخوذ از: تحفۃ الاحوذى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

اور عرفى اور مناوى رحمہما اللہ نے بھى ايسے ہى كہا ہے.

جن سوالات كے جوابات كا ہم نے اوپر كى سطور ميں حوالہ ديا ہے اس ميں ہم دو چيزيں بيان كر چكے ہيں:

پہلى:

عدم قبوليت سے مراد يہ ہے كہ اس كا ثواب حاصل نہيں ہوتا، اس كا معنى يہ نہيں كہ انسان عبادت كرنا ہى ترك كر دے، بلكہ اگر وہ عبادات ترك كرتا ہے تو وہ ايك اور گناہ كا مرتكب ہو رہا ہے، اور ہو سكتا ہے يہ جرم شراب نوشى سے بھى زيادہ بڑا ہو جيسا كہ نماز ادا نہ كرنا.

اور جس شخص كے پاس حج كرنے كى استطاعت ہو تو جمہور علماء كے ہاں اس پر حج فورا فرض ہو جاتا ہے، اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں، اور اگر وہ اس ميں تاخير كرتا ہے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى:

شراب نوشى كرنے كى يہ سزا تو اس كے حق ميں ہے جو توبہ نہيں كرتا، ليكن جو شخص توبہ كرتا ہوا اللہ تعالى كى طرف رجوع كرتا ہے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے اعمال بھى قبول كرتا ہے.

اس سے آپ يہ جان سكتے ہيں كہ آپ پر واجب ہے كہ آپ اللہ تعالى كے ہاں اس كام سے توبہ كريں، اور آئندہ ايسا كام كبھى نہ كرنے كا عزم كريں اور آپ كو چاہيے كہ اعمال صالحہ كثرت سے كريں، اور ان ميں حج بھى شامل ہے، كيونكہ حج مبرور كى جزا اور بدلہ جنت كے علاوہ كچھ نہيں، اور جب حج مبرور اور توبہ دونوں اكٹھے ہو جائيں تو سب گناہ اور غلطياں معاف ہو جاتى ہيں، چاہے وہ صغيرہ گناہ ہوں يا كبيرہ.

اور آپ ان برے ہم نشينوں اور دوستوں سے بچ كر رہيں جنہوں نے آپ كو اس عظيم معصيت و گناہ ميں كھينچا ہے، اور آپ سے اس عظيم گناہ كا ارتكاب كروايا ہے، اس ليے آپ جتنى جلدى ہو سكے انہيں نصيحت كريں اور انہيں توبہ كرنے اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے كى دعوت ديں، اگر تو وہ آپ كى نصيحت اور دعوت قبول كر ليں تو ٹھيك، وگرنہ آپ ان سے اس طرح دور بھاگ جائيں جس طرح آپ شير سے دور بھاگتے ہيں.

كيونكہ انسان كو روز قيامت اس كے ساتھ ہى اٹھايا جائيگا جسے وہ پسند كرتا اور اس سے محبت كرتا ہے، اور فاجر شخص كى صحبت اور دوستى سے تو صرف نقصان اور خسارہ ہى حاصل ہوتا ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جس روز ظالم شخص اپنے ہاتھوں كو كاٹ كھائيگا، اور كہےگا ہائے افسوس كاش ميں رسول كى راہ اور طريقے كو اپنا ليتا، ہائے افسوس كاش ميں فلان شخص كو دوست نہ بناتا، اس نے مجھے ذكر سے گمراہ كر ديا بعد اس كے كہ وہ ميرے پاس آ چكا تھا، اور شيطان انسان كو ذليل كرنے والا ہے الفرقان ( 27 - 29 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے، اور آپ كو معاف كرے، اور آپ سے درگزر فرمائے، اور آپ كو صراط مستقيم كى ہدايت نصيب كرے، اور آپ كو اس پر ثابت قدمى سے نوازے، اور آپ سے جنوں اور انسانى شيطانوں كو دور ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب