الحمد للہ.
اول:
ویزا کارڈ کے ساتھ لین دین کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں درج ذیل شرعی قباحتیں موجود نہ ہوں:
1- ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ یا منافع وصول کرنے کی شرط لگائی جائیں۔
2- غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقوم نکلوانے پر شرح منافع لیا جائے، تاہم اس کی حقیقی اجرت وصول کی جا سکتی ہے، جبکہ اضافی اجرت سود شمار ہو گی۔
3- غیر مشمول کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سونے ، چاندی یا کرنسی کا لین دین کرنا۔
اس بارے میں اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے قرار دادیں جاری ہو چکی ہیں اور ان میں ان تمام شرعی قباحتوں کا بھی ذکر ہے، اس کے لیے آپ سوال نمبر: (97530) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
کسی بھی سودی معاہدے میں شامل ہونا یا اس پر دستخط کرنا جائز نہیں ہے، چاہے انسان مقررہ وقت پر ادائیگی کے لیے پر عزم ہو؛ کیونکہ یہ معاہدہ ہی حرام ہے اسے تسلیم کرنا ہی جائز نہیں ہے؛ نیز یہ بھی ہے کہ انسان بھول چوک، یا بیماری وغیرہ جیسی کسی بھی ناگہانی صورت کی بنا پر ادائیگی کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے، اور اس طرح وہ سود میں ملوث ہو جائے گا۔
مرداوی رحمہ اللہ "الانصاف "(4/473) میں کہتے ہیں کہ:
"[بائع اور مشتری ] دونوں کا کوئی فاسد معاہدہ کرنا ہی حرام ہے،پس اگر ایسا کیا تو اس معاہدے کی وجہ سے ملکیت حاصل نہ ہو گی اور نہ ایسا معاہدہ [فقہ حنبلی میں]صحیح موقف کے مطابق نافذ العمل ہوگا" ختم شد
اس بنا پر یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ بلا ضرورت ایسے کسی معاہدے میں شامل ہوں، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ کو مجبورا باطل شرائط پر مشتمل معاہدے پر دستخط کرنے پڑیں گے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ آپ کی نیت یہ ہے کہ اس کارڈ سے نقدی نہیں نکلوائیں گے اور اس پر مرتب ہونے والی سودی رقم سے بچ جائیں گے لیکن اس کارڈ میں تو یہ صلاحیت ہے کہ آپ اس سے نقدی نکلوا سکتے ہیں، تو ایسی صورت میں انسان محتاط اقدام کرے، اپنے آپ کو کسی فتنے کے درپے نہ کرے، اور مال کا فتنہ خطرناک ترین فتنوں میں سے ہے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: ( 13735 ) ، ( 13725 ) اور ( 3402 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.