جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر اپنے گھر والوں اور بھائیوں کی طرف سے ظلم کا شکار ہو تو صرف سلام کہنے پر اکتفا کر سکتی ہے؟

سوال

اگر کسی عورت کو اپنے گھر والوں اور بھائیوں کی طرف سے ظلم کا سامنا ہو، اور وہ اپنے موقف پر ڈٹے بھی رہیں تو وہ عورت ان سے میل جول کم کرنے کے لیے صرف سلام کہنے پر اکتفا کر سکتی ہے؟ یا پھر یہ ممنوعہ قطع تعلقی میں آئے گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے اس کا شرعی طور پر تاکیدی حکم ہے؛ کیونکہ کتاب و سنت میں صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اور قطع رحمی سے روکا گیا ہے، اور صلہ رحمی میل جول، رابطے اور حال احوال دریافت کرنے سے بڑھتی ہے، انسان کو یہ کام اپنی استطاعت کے مطابق کرنے چاہییں۔

مناسب تو یہی ہے قربِ الہی کا ذریعہ بننے والے اس عظیم عمل میں کوتاہی کا شکار مت ہوں، نہ ہی بھائیوں کا سخت رویہ اور ظلم آپ کو اس عمل سے دور کرے؛ کیونکہ صلہ رحمی کرنے پر آپ کو اجر ضرور ملے گا، چاہے وہ آپ کے حقوق میں کوتاہ کیوں نہ ہو، جیسے کہ صحیح مسلم : (2558) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں، میں ان کی غلطیوں پر حلم سے کام لیتا ہوں لیکن وہ مجھ سے مبنی بر جہالت رویہ رکھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم بیان کر رہے تو تم انہیں گرم راکھ کھلا رہے ہو، جب تک تم ان کے ساتھ ایسے رہیں گے اللہ تعالی کی طرف سے ایک معاون تمہارے ہمراہ رہے گا۔)

گرم راکھ کھلانے کا مطلب یہ ہے کہ: جس طرح گرم راکھ کھلانے سے انہیں تکلیف ہو گی اتنا ہی انہیں اس گناہ پر سزا ملے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ: آپ کے احسانات ان کے لیے گرم راکھ کی مانند ہیں کہ ان کی آنتوں کو جلا کر رکھ دیں گے۔

تاہم اگر آپ کے میل جول سے تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے، اور نفرت بڑھتی ہے تو پھر آپ صرف سلام پر اکتفا کر سکتے ہیں اور ملاقات سمیت گفتگو بھی کم کر سکتے ہیں۔

صرف سلام کرنے سے ممنوعہ قطع تعلقی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ بھی نہیں ہو گا۔

جیسے کہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے، یہ دونوں ایک دوسرے کو ملیں تو ایک دوسرے سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتدا کرے۔)

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دو ناراض افراد میں سے ایک شخص دوسرے کو سلام کر دے تو کیا یہ قطع تعلقی سے نکل جائے گا یا نہیں؟ اس کے متعلق اہل علم کے ہاں اختلاف ہے، چنانچہ ابن وہب مالک سے بیان کرتے ہیں کہ : جب سلام کر دے تو قطع تعلقی ختم ہو گئی۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتدا کرے۔) سے اخذ کی ہے، یا پھر کسی کہنے والے کی اس بات سے اخذ کیا ہے کہ: سلام کرنے سے قطع تعلقی ختم ہو جاتی ہے۔

ابو بکر اثرم کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا: اگر کوئی انہیں سلام کرے تو کیا سلام کرنے سے قطع تعلقی ختم ہو جائے گی؟ تو انہوں نے کہا: دیکھا جائے گا کہ قطع تعلقی سے پہلے وہ کیسے تھے؟ اگر قطع تعلقی سے پہلے وہ آپس میں بات چیت بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ بھی رہتے تھے تو اب صرف ایسا سلام ہی قطع تعلقی سے نکال سکتا ہے جس سلام کو کرتے ہوئے بے رخی اور اعراض نہ ہو۔
اسی طرح کی بات مالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔" ختم شد
"التمهيد" (6/127)

امام نووی رحمہ اللہ مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
حدیث کے الفاظ: (ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتدا کرے۔) یعنی پہلے سلام کرنے والا افضل ہے، ان الفاظ میں امام شافعی اور مالک سمیت ان اہل علم کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سلام کرنے سے قطع تعلقی ختم ہو جاتی ہے، اور گناہ دھل جاتا ہے" ختم شد
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب