سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

آثار قديمہ كے مجسمہ جات فروخت كرنے كا حكم

98632

تاریخ اشاعت : 20-07-2008

مشاہدات : 7483

سوال

اسلام ميں اثرى مجسمے فروخت كرنے كا حكم كيا ہے، جسے تحفے كا نام ديا جاتا ہے ( مكمل مسجمے، اور مجسموں كے سر اور بغير سر كے مجسموں كے بدن ) كيونكہ ميں عالمى طور پر تاريخى اور آثار قديمہ كے ماہرين اور عجائب گھر وغيرہ كے ساتھ ان اثرى اشياء كى تجارت كرنے كى مكمل استطاعت ركھتا ہوں، اس ليے كہ علمى اور تاريخ سرچ كى تعليم ہو سكے، اور ميرے مالى اور معاشرتى حالات كچھ مشكل سے ہيں، ليكن ميں چاہتا ہوں كہ اس قسم كى تجارت كرنے سے قبل اس كا حكم معلوم كر لوں، اور مجھے علم ہے كہ حلال اور حرام كا حكم فقر اور مالدارى ميں ثابت ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ذى روح اشياء مثلا انسان يا پرندہ يا حيوان وغيرہ كا مجسمہ بنانا جائز نہيں، كيونكہ اس كے متعلق بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اور اس كا تفصيلي بيان سوال نمبر ( 7222 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

اور جس چيز كو بنانا حرام ہو اسے فروخت كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ جب اللہ تعالى كسى چيز كو حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے.

مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى يہوديوں پر لعنت فرمائے ان پر چربى حرام كى گئى تو انہوں نے اسے فروخت كر كے اس كى قيمت كھا لى، اور بلا شب جب اللہ تعالى كوئى چيز كو كھانا حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 2678 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شعيب ارناؤوط نے اسے صحيح كہا ہے، اور اس كى اصل صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں موجود ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا مسلمان شخص كے مجسمے فروخت كرنا، اور اسے سامان تجارت بنانا، اور ذريعہ معاش بنانا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

مسلمان شخص كے ليے اس كى تجارت كرنا يا فروخت كرنا جائز نہيں، كيونكہ صحيح احاديث ميں ذى روح كى تصاوير، اور مطلقا اس كے مجسمے بنانا، اور انہيں باقى ركھنے كى حرمت ثابت ہے، اور بلاشك و شبہ مجسموں كى تجارت مجسموں كى ترويج كا باعث، اور اس كى تصوير بنانے اور انہيں گھروں ميں ركھنے ميں معاونت ہے.

اور جب يہ حرام ہے تو پھر اس سے كمائى كرنا اور اسے فروخت كرنا بھى حرام ہوا، كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اسے ذريعہ معاش بنائے اور اس كى كمائى كھائےن يا پھر اس كمائى سے كھانا اور لباس وغيرہ خريدے، اس بنا پر اگر كوئى شخص ايسا كر بيٹھے تو اسے اس حرام كمائى سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہيے، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے توبہ كرتے ہوئے يہ عہد كرنا چاہيے كہ وہ ايسا كام كبھى نہيں كريگا، اميد ہے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرما كر اسے معاف كر ديگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور بلاشبہ يقينا ميں اسے معاف كرنے اور بخش دينے والا ہوں جو توبہ كرے اور نيك و صالحہ اعمال كرے اور پھر راہ راست پر آجائے طہ ( 82 ).

اور ہمارى جانب سے ذى روح كى مطلق تصاوير كى حرمت كے متعلق فتوى بھى صادر ہو چكا ہے، چاہے وہ تصوير مجسمہ ہو يا غير مجسمہ، اور چاہے وہ نقش و نگار كر كے بنائى گئى ہو يا كريد كر يا پھر فوٹو كاپى كر كے، يا پھر رنگ كے ساتھ يا جديد قسم كے آلہ تصوير كے ساتھ يعنى كوڈك كيمرہ كے ساتھ " انتہى.

ماخوذ از: الجواب المفيد في حكم التصوير تاليف فضيلۃ الشيخ ابن باز صفحہ نمبر ( 49 - 50 ).

اور جس تصوير يا مجسمے كا سر توڑ يا مٹا كر ختم كر ديا گيا ہو تو يہ حرام تصوير شمار نہيں ہو گى، اور اسے ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اگر اس سے فائدہ اٹھايا جاسكتا ہو تو اسے فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس سے كسى حرام كام ميں تعاون نہ ليا جائے، مثلا وہ كسى ايسے مجمسے كا ٹكڑا ہو جس كى عبادت كى جاتى ہو يا پھر اس سے تبرك حاصل كيا جاتا ہو.

تصوير كا سر مٹانے اور كاٹنے كے بعد تصوير كى اباحت پر درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے پاس جبريل عليہ السلام آئے اور كہنے لگے: ميں كل رات آيا تھا تو مجھے آپ كے پاس گھر ميں داخل ہونے سے صرف اس چيز نے روكا كہ گھر كے دروازے پر آدميوں كے مجسمے تھے، اور گھر ميں ايك پردہ پر مجسمے بنے ہوئے تھے، اور گھر ميں ايك كتا تھا اس ليے آپ حكم ديں كہ دروازے پر موجود ان مجسموں كے سر كاٹ ديے جائيں تا كہ وہ درخت كى شكل ميں بن جائيں.

اور پردے كو كاٹ كر اس كے تكيے بنا ليں جنہيں روندا جائے، اور كتے كو نكالنے كا حكم ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا، اور وہ كتے كا پلا حسن اور حسين كا تھا جو ايك ميز كے نيچے گھسا ہوا تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا تو اسے بھى نكال ديا گيا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2806 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

اور نسائى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جبريل عليہ السلام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت طلب كى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اندر آ جاؤ تو جبريل عليہ السلام كہنے لگے: كيسے اندر آ جاؤں حالانكہ آپ كے گھر ميں ايك پردہ ايسا ہے جس پر تصاوير ہيں ؟

يا تو ان تصويروں كے سر كاٹ ديے جائيں، يا پھر اسے نيچے بچھانے والا بچھونا بنا ليا جائے جسے روندا جائے، كيونكہ ہم فرشتے اس گھر ميں داخل نہيں ہوتے جہاں تصويريں ہوں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 5365 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اسماعيلى نے اپنى معجم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تصوير سر ہے، اور جب سر كاٹ ديا جائے تو پھر تصوير نہيں ہے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3864 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اوپر كى سطور ميں جو بيان ہوا ہے اس كى بنا پر آپ كے ليے ان اثرى مجسموں كى تجارت جائز نہيں جو ذى روح كى تصاوير ميں بنى ہوئے ہيں، ليكن اگر آپ ان كى سر اور منہ كاٹ ديں تو پھر ہو سكتا ہے، آپ نے يہ كام كرنے سے قبل اس كا حكم معلوم كرنے كے ليے سوال كر كے بہت بہتر اور اچھا كيا ہے، اور پھر آپ يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى كے خزانے بھرے ہوئے ہيں، اور اس كا رزق بہت وسيع ہے، اور اس كى عطا كى كوئى حد نہيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے اطاعت و فرمانبردارى كرنے والوں سے وعدہ كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

جس كسى نے بھى نيك و صالح عمل كيے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ مومن ہو تو ہم اسے اچھى اور پاكيزہ زندگى عطا فرمائينگے، اور اسے ان اعمال كا اچھا بدل دينگے جو وہ كرتے رہے ہيں النحل ( 97 ).

اس ليے آپ كو اسباب تلاش كرنے چاہيے، اور پھر اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتے ہوئے كوئى مباح كام تلاش كريں، تو پھر آپ خير و بھلائى اور بہتر اور اچھے رزق كى خوشخبرى ضرور پائينگے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے اور آپ كو راہ راست پر ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب